Book - حدیث 1342

كِتَابُ التَّطَوُّعِ بَابُ فِي صَلَاةِ اللَّيْلِ صحیح حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، قَالَ: طَلَّقْتُ امْرَأَتِي، فَأَتَيْتُ الْمَدِينَةَ لِأَبِيعَ عَقَارًا كَانَ لِي بِهَا فَأَشْتَرِيَ بِهِ السِّلَاحَ وَأَغْزُو، فَلَقِيتُ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: قَدْ أَرَادَ نَفَرٌ مِنَّا –سِتَّةٌ- أَنْ يَفْعَلُوا ذَلِكَ، فَنَهَاهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: {لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ}[الأحزاب: 21]، فَأَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَسَأَلْتُهُ، عَنْ وِتْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: أَدُلُّكَ عَلَى أَعْلَمِ النَّاسِ بِوِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأْتِ عَائِشَةَ رَضِي اللَّهُ عَنْهَا، فَأَتَيْتُهَا، فَاسْتَتْبَعْتُ حَكِيمَ بْنَ أَفْلَحَ، فَأَبَى، فَنَاشَدْتُهُ، فَانْطَلَقَ مَعِي، فَاسْتَأْذَنَّا عَلَى عَائِشَةَ، فَقَالَتْ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: حَكِيمُ بْنُ أَفْلَحَ، قَالَتْ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: سَعْدُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَتْ: هِشَامُ بْنُ عَامِرٍ الَّذِي قُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَتْ: نِعْمَ الْمَرْءُ كَانَ عَامِرٌ، قَالَ: قُلْتُ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ! حَدِّثِينِي، عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: أَلَسْتَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟! فَإِنَّ خُلُقَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ الْقُرْآنَ، قَالَ: قُلْتُ: حَدِّثِينِي عَنْ قِيَامِ اللَّيْلِ؟ قَالَتْ: أَلَسْتَ تَقْرَأُ {يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ}[أول سورة المزمل]؟ قَالَ: قُلْتُ: بَلَى، قَالَتْ: فَإِنَّ أَوَّلَ هَذِهِ السُّورَةِ نَزَلَتْ، فَقَامَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى انْتَفَخَتْ أَقْدَامُهُمْ، وَحُبِسَ خَاتِمَتُهَا فِي السَّمَاءِ اثْنَيْ عَشَرَ شَهْرًا، ثُمَّ نَزَلَ آخِرُهَا، فَصَارَ قِيَامُ اللَّيْلِ تَطَوُّعًا بَعْدَ فَرِيضَةٍ، قَالَ: قُلْتُ: حَدِّثِينِي عَنْ وِتْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: كَانَ يُوتِرُ بِثَمَانِ رَكَعَاتٍ لَا يَجْلِسُ إِلَّا فِي الثَّامِنَةِ، ثُمَّ يَقُومُ فَيُصَلِّي رَكْعَةً أُخْرَى لَا يَجْلِسُ إِلَّا فِي الثَّامِنَةِ، وَالتَّاسِعَةِ، وَلَا يُسَلِّمُ إِلَّا فِي التَّاسِعَةِ، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ، فَتِلْكَ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يَا بُنَيَّ، فَلَمَّا أَسَنَّ وَأَخَذَ اللَّحْمَ أَوْتَرَ بِسَبْعِ رَكَعَاتٍ، لَمْ يَجْلِسْ إِلَّا فِي السَّادِسَةِ وَالسَّابِعَةِ، وَلَمْ يُسَلِّمْ إِلَّا فِي السَّابِعَةِ، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ، فَتِلْكَ هِيَ تِسْعُ رَكَعَاتٍ يَا بُنَيَّ، وَلَمْ يَقُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً يُتِمُّهَا إِلَى الصَّبَاحِ، وَلَمْ يَقْرَأِ الْقُرْآنَ فِي لَيْلَةٍ قَطُّ، وَلَمْ يَصُمْ شَهْرًا يُتِمُّهُ غَيْرَ رَمَضَانَ، وَكَانَ إِذَا صَلَّى صَلَاةً دَاوَمَ عَلَيْهَا، وَكَانَ إِذَا غَلَبَتْهُ عَيْنَاهُ مِنَ اللَّيْلِ بِنَوْمٍ,صَلَّى مِنَ النَّهَارِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً، قَالَ: فَأَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، فَحَدَّثْتُهُ، فَقَالَ: هَذَا وَاللَّهِ هُوَ الْحَدِيثُ، وَلَوْ كُنْتُ أُكَلِّمُهَا لَأَتَيْتُهَا حَتَّى أُشَافِهَهَا بِهِ مُشَافَهَةً، قَالَ: قُلْتُ: لَوْ عَلِمْتُ أَنَّكَ لَا تُكَلِّمُهَا مَا حَدَّثْتُكَ.

ترجمہ Book - حدیث 1342

کتاب: نوافل اور سنتوں کے احکام ومسائل باب: رات کی نماز ( تہجد ) کا بیان سعد بن ہشام کہتے ہیں کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور مدینے چلا آیا تاکہ یہاں کی اپنی جائیداد فروخت کر کے اسلحہ وغیرہ خرید لوں اور جہاد کے لیے نکل جاؤں ۔ چنانچہ میں بعض صحابہ کرام ؓم سے ملا تو انہوں نے بتایا کہ ہم میں سے چھ آدمیوں نے ایسے ہی کرنا چاہا تھا ، مگر نبی کریم ﷺ نے ان کو منع فر دیا تھا ۔ اور فرمایا ” تمہارے لیے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے ۔ “ چنانچہ میں سیدنا ابن عباس ؓ کے پاس آیا ۔ میں نے ان سے نبی کریم ﷺ کے وتروں کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا : میں تمہیں وہ شخصیت بتاتا ہوں جو رسول اللہ ﷺ کے وتروں کے متعلق سب سے زیادہ باخبر ہے ۔ سیدہ عائشہ ؓا کے پاس چلے جاؤ ۔ میں سیدہ عائشہ ؓا کے ہاں آیا اور حکیم بن افلح کو اپنے ساتھ چلنے کو کہا : انہوں نے انکار کیا ۔ میں نے ان کو قسم دی تو وہ میرے ساتھ چل پڑے ۔ ہم نے سیدہ عائشہ ؓا سے ملاقات کی اجازت چاہی تو انہوں نے پوچھا : کون ہو ؟ کہا : حکیم بن افلح ۔ پوچھا تمہارے ساتھ اور کون ہے ؟ کہا : سعد بن ہشام ۔ کہنے لگیں وہی ہشام بن عامر جو احد کے روز قتل ہو گئے تھے ؟ میں نے کہا : ہاں ۔ وہ کہنے لگیں عامر بہت بھلے انسان تھے ۔ میں نے کہا : اے ام المؤمنین ! مجھے رسول ﷺ کے خلق ( اخلاق و عادات ) کے متعلق ارشاد فرمائیں ۔ کہنے لگیں : کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ہو ؟ رسول ﷺ کا خلق بس قرآن ہی تھا ۔ میں نے کہا : مجھے رسول ﷺ کے قیام اللیل کے متعلق ارشاد فرمائیں ۔ کہنے لگیں کیا تم سورۃ «يأيها المزمل» نہیں پڑھتے ہو ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں ۔ انہوں نے کہا : اس سورت کا ابتدائی حصہ نازل ہوا تو اصحاب رسول ﷺ نے قیام کرنا شروع کیا ، حتیٰ کہ ان کے پاؤں سوج جاتے ۔ اور اس سورت کا آخری حصہ بارہ مہینے آسمان پر روکے رکھا گیا ۔ ( یعنی نازل نہیں ہوا ۔ ) پھر کہیں اس کا آخری حصہ نازل ہوا تو رات کا قیام نفل قرار پایا جبکہ پہلے فرض تھا ۔ میں نے کہا : مجھے نبی کریم ﷺ کے وتر کے متعلق فرمائیں ۔ وہ کہنے لگیں : آپ ﷺ آٹھ رکعات پڑھتے ، ان میں آپ صرف آٹھویں رکعت پر تشہد بیٹھتے ، پھر اٹھتے اور ایک اور رکعت پڑھتے ۔ آپ آٹھویں اور نویں رکعت ہی پر بیٹھتے اور نویں پر سلام پھیرتے ۔ اس کے بعد آپ دو رکعتیں پڑھتے ، بیٹھے ہوئے ۔ بیٹے ! یہ گیارہ ہوئیں ۔ پھر جب آپ بڑی عمر کے ہو گئے اور کچھ فربہ بھی ، تو سات رکعات وتر پڑھنے لگے ۔ آپ چھٹی اور ساتویں رکعت پر بیٹھتے اور ساتویں ہی پر سلام پھیرتے ۔ پھر دو رکعتیں پڑھتے جبکہ آپ بیٹھے ہوئے ہوتے ۔ بیٹے ! یہ اس طرح نو رکعات ہوتیں ۔ اور رسول ﷺ نے کبھی بھی ساری رات صبح تک قیام نہیں فرمایا ۔ اور آپ نے کبھی بھی ایک رات میں قرآن ختم نہیں کیا ۔ اور رمضان کے علاوہ کسی بھی مہینے کے پورے روزے نہیں رکھے ۔ اور جب کوئی نماز ( یعنی نفل ) شروع کر لیتے تو اس پر ہمیشگی فرماتے ۔ اگر کبھی کسی رات نیند کا غلبہ ہو جاتا تو دن میں بارہ رکعات پڑھتے ۔ ( سعد کہتے ہیں ) پھر میں سیدنا ابن عباس ؓ کے پاس آیا اور انہیں یہ سب بتایا تو انہوں نے کہا : قسم اللہ کی ! یہی حدیث ہے ( جو میں چاہتا تھا ) اگر میں ان سے بولتا ہوتا تو میں خود ان کی خدمت میں حاضر ہوتا اور بالمشافہ سنتا ۔ سعد نے کہا : اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ ان سے نہیں بولتے ہیں تو میں آپ کو یہ حدیث نہ سناتا ۔
تشریح : فوائد و مسائل: (1)جناب سعد بن ہشام﷫ جیسا انداز فکر و علم کہ انسان نفس ودنیا کی لذتوں سے بالکل ہی منقطع ہو جائے ، اسوۂ رسول ﷺ اور عمل صحابہ کے خلاف ہے۔(2) تحقیق مسائل میں سائل کو افضل واعلیٰ علمی شخصیت کی طرف تحویل (Refer) كرنا آداب علمی کا حصہ ہے۔(3)رات کی نماز کے کئی نام ہیں۔ قیام اللیل، تہجد او روتر۔ رمضان کی مناسبت سے ’’تراویح‘‘ کا لفظ بعد کے زمانے میں مروج ہوا ہے۔(4) رسو ل اللہﷺ کا خلق قرآن تھا،یعنی آپ اس کے اوامر و نواہی اور دیگر آداب کے مجسم نمونہ تھے۔(5) تہجد اوروتر پڑھنے کے تقریباً تیرہ طریقے ہیں۔دیکھئے(محلی :2/82۔91/مسئلہ:29) اور ان میں کوئی تعارض نہیں۔(6) نورکعت مسلسل کی نیت باندھنا بالکل جائز اور سنت ہے۔اس صورت میں آٹھویں رکعت پر تشہد پڑھ کر نویں رکعت پڑھی جائے او رپھر سلام پھیرا جائے۔ سات رکعت کی نیت ہو تو چھٹی پر تشہد کے لیے میٹھے اور ساتویں پر سلام پھیرے۔ تین اور پانچ رکعتوں میں صرف ایک آخری تشہد ہوتا ہے۔(7) وتروں کے بعد کبھی کبھی دورکعت بھی مستحب ہیں۔(8) تہجد قضا ہو جائے تو فجر کی نماز سے پہلے یا بعد وتر ادا کرلے۔ یا پھر دن میں بارہ رکعت پڑھ لی جائیں۔(9) حضرت ابن عباس کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مابین ظاہر ہوئے تھے۔ واللہ اعلم، تاہم اس کے باوجود اعزاز شخصی اور جلالت علمی کاکامل اعتراف و اقرار ملحوظ خاطر تھا۔ رضی اللہ عنہم وارضاہم فوائد و مسائل: (1)جناب سعد بن ہشام﷫ جیسا انداز فکر و علم کہ انسان نفس ودنیا کی لذتوں سے بالکل ہی منقطع ہو جائے ، اسوۂ رسول ﷺ اور عمل صحابہ کے خلاف ہے۔(2) تحقیق مسائل میں سائل کو افضل واعلیٰ علمی شخصیت کی طرف تحویل (Refer) كرنا آداب علمی کا حصہ ہے۔(3)رات کی نماز کے کئی نام ہیں۔ قیام اللیل، تہجد او روتر۔ رمضان کی مناسبت سے ’’تراویح‘‘ کا لفظ بعد کے زمانے میں مروج ہوا ہے۔(4) رسو ل اللہﷺ کا خلق قرآن تھا،یعنی آپ اس کے اوامر و نواہی اور دیگر آداب کے مجسم نمونہ تھے۔(5) تہجد اوروتر پڑھنے کے تقریباً تیرہ طریقے ہیں۔دیکھئے(محلی :2/82۔91/مسئلہ:29) اور ان میں کوئی تعارض نہیں۔(6) نورکعت مسلسل کی نیت باندھنا بالکل جائز اور سنت ہے۔اس صورت میں آٹھویں رکعت پر تشہد پڑھ کر نویں رکعت پڑھی جائے او رپھر سلام پھیرا جائے۔ سات رکعت کی نیت ہو تو چھٹی پر تشہد کے لیے میٹھے اور ساتویں پر سلام پھیرے۔ تین اور پانچ رکعتوں میں صرف ایک آخری تشہد ہوتا ہے۔(7) وتروں کے بعد کبھی کبھی دورکعت بھی مستحب ہیں۔(8) تہجد قضا ہو جائے تو فجر کی نماز سے پہلے یا بعد وتر ادا کرلے۔ یا پھر دن میں بارہ رکعت پڑھ لی جائیں۔(9) حضرت ابن عباس کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مابین ظاہر ہوئے تھے۔ واللہ اعلم، تاہم اس کے باوجود اعزاز شخصی اور جلالت علمی کاکامل اعتراف و اقرار ملحوظ خاطر تھا۔ رضی اللہ عنہم وارضاہم