Book - حدیث 1331

كِتَابُ التَّطَوُّعِ بَابُ فِي رَفْعِ الصَّوْتِ بِالْقِرَاءَةِ فِي صَلَاةِ اللَّيْلِ صحیح - حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ رَجُلًا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ فَقَرَأَ، فَرَفَعَ صَوْتَهُ بِالْقُرْآنِ، فَلَمَّا أَصْبَحَ,قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >يَرْحَمُ اللَّهُ فُلَانًا! كَأَيٍّ مِنْ آيَةٍ أَذْكَرَنِيهَا اللَّيْلَةَ، كُنْتُ قَدْ أَسْقَطْتُهَا<. قَالَ أَبو دَاود: رَوَاهُ هَارُونُ النَّحْوِيُّ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ فِي سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ فِي الْحُرُوفِ: {وَكَأَيٍّ مِنْ نَبِيٍّ}[آل عمران: 146].

ترجمہ Book - حدیث 1331

کتاب: نوافل اور سنتوں کے احکام ومسائل باب: رات کی نماز میں قرآت جہری کرنا ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓا سے مروی ہے کہ ایک شخص رات کو اٹھا اور قرآت کرنے لگا اور اپنی آواز بلند رکھی ۔ جب صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” اللہ فلاں پر رحم فرمائے ! اس نے آج رات مجھے کتنی ہی آیتیں یاد دلا دیں جن میں مجھے ذہول ہو رہا تھا ۔ “ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ اس کو ہارون نحوی نے حماد بن سلمہ سے بیان کیا تو سورۃ آل عمران کی آیت «وكأين من نبي» نقل کی ۔
تشریح : توضیح:امام بخاری فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کا قرآن کو بھولنا دو طرح سےہوسکتا ہے ۔ ایک عارضی ، دوسرا دائمی۔ عارضی نسیان بنی آدم کی طبائع میں فطرتاً رکھا گیا ہے، اس میں رسول اللہﷺ بھی شامل ہیں۔ نماز کی رکعات بھول جانے پر آپ فرماتے ہیں:(انما انا بشر انسیٰ کما تنسون) صحیح بخاری، الصلاۃ، حدیث:401 وصحیح مسلم، المساجد، حدیث:572) ’’ میں بشر ہوں، جیسے تم بھولتے ہو میں بھی بھول جاتا ہوں۔‘‘ اور اس قسم کے نسیان کاازالہ ہوجاتا ہے، کبھی از خود اور کبھی دوسرے کےیاد دلانے سے اور اللہ عزوجل نے حفاظت قرآن کا ذمہ لیا ہوا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿إِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّكرَ‌ وَإِنّا لَهُ لَحـٰفِظونَ﴾ سورۃ الحجر :9،’’ ہم نے اس ذکر کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘نسیان کی دوسری قسم یہ ہے کہ آپ کے سینے سے ان آیات کا حفظ بالکلیہ ختم کردیا جائے۔ یہ نسخ کی ایک قسم اور صورت ہے۔ارشاد باری تعالی ہے: ﴿سَنُقرِ‌ئُكَ فَلا تَنسىٰ ٭إِلّا ما شاءَ اللَّهُ﴾ سورۃ الاعلی 6، 7، ’’ ہم آپ کو پڑھائیں گے ، پھر آپ بھولیں گے نہیں، مگر جو اللہ چاہے۔‘‘ دوسری جگہ فرمایا:﴿ ما نَنسَخ مِن ءايَةٍ أَو نُنسِها نَأتِ بِخَيرٍ‌ مِنها أَو مِثلِها﴾ سورۃ البقرۃ:106) ’’ جب کوئی آیت ہم منسوخ کریں یا بھلوا دیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی لے آئیں گے۔‘‘ حدیث میں جس نسیان کا ذکر ہے وہ پہلی صورت ہے جو کوئی عیب نہیں۔( بذل المجہود) توضیح:امام بخاری فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کا قرآن کو بھولنا دو طرح سےہوسکتا ہے ۔ ایک عارضی ، دوسرا دائمی۔ عارضی نسیان بنی آدم کی طبائع میں فطرتاً رکھا گیا ہے، اس میں رسول اللہﷺ بھی شامل ہیں۔ نماز کی رکعات بھول جانے پر آپ فرماتے ہیں:(انما انا بشر انسیٰ کما تنسون) صحیح بخاری، الصلاۃ، حدیث:401 وصحیح مسلم، المساجد، حدیث:572) ’’ میں بشر ہوں، جیسے تم بھولتے ہو میں بھی بھول جاتا ہوں۔‘‘ اور اس قسم کے نسیان کاازالہ ہوجاتا ہے، کبھی از خود اور کبھی دوسرے کےیاد دلانے سے اور اللہ عزوجل نے حفاظت قرآن کا ذمہ لیا ہوا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿إِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّكرَ‌ وَإِنّا لَهُ لَحـٰفِظونَ﴾ سورۃ الحجر :9،’’ ہم نے اس ذکر کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘نسیان کی دوسری قسم یہ ہے کہ آپ کے سینے سے ان آیات کا حفظ بالکلیہ ختم کردیا جائے۔ یہ نسخ کی ایک قسم اور صورت ہے۔ارشاد باری تعالی ہے: ﴿سَنُقرِ‌ئُكَ فَلا تَنسىٰ ٭إِلّا ما شاءَ اللَّهُ﴾ سورۃ الاعلی 6، 7، ’’ ہم آپ کو پڑھائیں گے ، پھر آپ بھولیں گے نہیں، مگر جو اللہ چاہے۔‘‘ دوسری جگہ فرمایا:﴿ ما نَنسَخ مِن ءايَةٍ أَو نُنسِها نَأتِ بِخَيرٍ‌ مِنها أَو مِثلِها﴾ سورۃ البقرۃ:106) ’’ جب کوئی آیت ہم منسوخ کریں یا بھلوا دیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی لے آئیں گے۔‘‘ حدیث میں جس نسیان کا ذکر ہے وہ پہلی صورت ہے جو کوئی عیب نہیں۔( بذل المجہود)