Book - حدیث 1296

كِتَابُ التَّطَوُّعِ بَابُ فِي صَلَاةِ النَّهَارِ ضعیف حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنِي عَبْدُ رَبِّهِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ أَبِي أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ عَنِ الْمُطَّلِبِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: >الصَّلَاةُ مَثْنَى مَثْنَى,أَنْ تَشَهَّدَ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ، وَأَنْ تَبَاءَسَ، وَتَمَسْكَنَ وَتُقْنِعَ بِيَدَيْكَ، وَتَقُولَ: اللَّهُمَّ، اللَّهُمَّ، فَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَهِيَ خِدَاجٌ<. سئِلَ أَبو دَاود عَنْ صَلَاةِ اللَّيْلِ مَثْنَى؟ قَالَ: إِنْ شِئْتَ مَثْنَى، وَإِنْ شِئْتَ أَرْبَعًا

ترجمہ Book - حدیث 1296

کتاب: نوافل اور سنتوں کے احکام ومسائل باب: دن کے نوافل ( کس طرح پڑھے جائیں ) جناب عبداللہ بن حارث ، مطلب سے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ” نماز دو دو رکعت ہے ۔ یوں کہ تم ہر دو رکعت پر تشہد پڑھو ، اپنی زاری اور مسکینی کا اظہار کرو ، دونوں ہاتھ ااٹھاؤ اور کہو «اللهم اللهم» “ اے اللہ ! اے اللہ ! “ اور جو یوں نہ کرے تو اس کی یہ نماز ناقص ہے ۔ امام ابوداؤد ؓ سے رات کی نماز دو رکعت ہونے کے متعلق پوچھا گیا تو کہا : چاہو تو دو دو رکعت پڑھ لو اور چاہو تو چار چار ۔
تشریح : ملحوظہ : یہ حدیث تو ضعیف ہے مگر چار رکعات پڑھنے کا ذکر حضرت عائشہ ؓ کی حدیث میں موجود ہے جس میں رمضان کی رات کی نماز کا سوال کیا گیا تھا ۔دیکھیے :(صحیح بخاری ‘ التھجد ‘ حدیث :1147 )[لیکن دوسری روایات میں صراحت ہے کہ نبی ﷺ کی رات کی نماز (نماز تہجد )دو دو رکعت ہوا کرتی تھیں ‘ سوائے وتر کے ‘ اس لیے آپ کا زیادہ عمل دو دو کرکے ہی پڑھنے کا تھا نہ کہ چار چار کر کے پڑھنے کا ۔صرف بیان جواز کے لیے آب نے بعض دفعہ چار چار کر کے پڑھی ہیں ۔بنابریں نوافل دو دو کرکے پڑھنا ہی زیادہ بہتر ہے ۔تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :فتح البار ی:2/618 ‘اوائل کتاب الوتر ‘ حدیث :990۔992 ] ملحوظہ : یہ حدیث تو ضعیف ہے مگر چار رکعات پڑھنے کا ذکر حضرت عائشہ ؓ کی حدیث میں موجود ہے جس میں رمضان کی رات کی نماز کا سوال کیا گیا تھا ۔دیکھیے :(صحیح بخاری ‘ التھجد ‘ حدیث :1147 )[لیکن دوسری روایات میں صراحت ہے کہ نبی ﷺ کی رات کی نماز (نماز تہجد )دو دو رکعت ہوا کرتی تھیں ‘ سوائے وتر کے ‘ اس لیے آپ کا زیادہ عمل دو دو کرکے ہی پڑھنے کا تھا نہ کہ چار چار کر کے پڑھنے کا ۔صرف بیان جواز کے لیے آب نے بعض دفعہ چار چار کر کے پڑھی ہیں ۔بنابریں نوافل دو دو کرکے پڑھنا ہی زیادہ بہتر ہے ۔تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :فتح البار ی:2/618 ‘اوائل کتاب الوتر ‘ حدیث :990۔992 ]