Book - حدیث 1277

كِتَابُ التَّطَوُّعِ بَابُ مَنْ رَخَّصَ فِيهِمَا إِذَا كَانَتْ الشَّمْسُ مُرْتَفِعَةً صحيح م دون جملة جوف الليل حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُهَاجِرِ عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ أَبِي سَلَّامٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنْ عَمْرِو ابْنِ عَبَسَةَ السُّلَمِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَيُّ اللَّيْلِ أَسْمَعُ؟ قَال:َ >جَوْفُ اللَّيْلِ الْآخِرُ,فَصَلِّ مَا شِئْتَ، فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَشْهُودَةٌ مَكْتُوبَةٌ، حَتَّى تُصَلِّيَ الصُّبْحَ، ثُمَّ أَقْصِرْ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَتَرْتَفِعَ، قِيسَ رُمْحٍ أَوْ رُمْحَيْنِ,فَإِنَّهَا تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ، وَيُصَلِّي لَهَا الْكُفَّارُ، ثُمَّ صَلِّ مَا شِئْتَ,فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَشْهُودَةٌ مَكْتُوبَةٌ، حَتَّى يَعْدِلَ الرُّمْحُ ظِلَّهُ، ثُمَّ أَقْصِرْ,فَإِنَّ جَهَنَّمَ تُسْجَرُ وَتُفْتَحُ أَبْوَابُهَا، فَإِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ فَصَلِّ مَا شِئْتَ,فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَشْهُودَةٌ، حَتَّى تُصَلِّيَ الْعَصْرَ، ثُمَّ أَقْصِرْ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ,فَإِنَّهَا تَغْرُبُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ، وَيُصَلِّي لَهَا الْكُفَّارُ<... وَقَصَّ حَدِيثًا طَوِيلًا. قَالَ الْعَبَّاسُ: هَكَذَا حَدَّثَنِي أَبُو سَلَّامٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، إِلَّا أَنْ أُخْطِئَ شَيْئًا لَا أُرِيدُهُ، فَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ.

ترجمہ Book - حدیث 1277

کتاب: نوافل اور سنتوں کے احکام ومسائل باب: ان حضرات کی دلیل جو عصر کے بعد نماز کی اجازت دیتے ہیں بشرطیکہ سورج اونچا ہو سیدنا عمرو بن عبسہ سلمی ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! رات کا کون سا حصہ زیادہ مقبول ہوتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ” آخر رات کا درمیانی حصہ ، سو جس قدر جی چاہے نماز پڑھو ۔ بیشک نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور اس کا اجر لکھا جاتا ہے حتیٰ کہ فجر پڑھ لو ۔ پھر رک جاؤ حتیٰ کہ سورج نکل آئے اور ایک یا دو نیزوں کے برابر اونچا آ جائے ۔ بیشک یہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے اور اس وقت کفار اس کی عبادت کرتے ہیں ۔ پھر نماز پڑھتے رہو ، بیشک نماز میں فرشتے حاضر ہوتے اور اس کا اجر لکھا جاتا ہے حتیٰ کہ نیزے کا سایہ اس ( نیزے ) کے برابر ہو جائے ( یعنی دوپہر ہو جائے اور کوئی زائد سایہ باقی نہ رہے ) تو رک جاؤ ۔ بیشک ( اس وقت ) جہنم بھڑکائی جاتی ہے اور اس کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں ۔ جب سورج ڈھل جائے تو جس قدر جی چاہے نماز پڑھو ، بیشک نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں ، حتیٰ کہ عصر پڑھ لو ، پھر رک جاؤ حتیٰ کہ سورج غروب ہو جائے ۔ بیشک یہ شیطان کے دو سینگوں کے مابین غروب ہوتا ہے اور ( اس وقت ) کفار اس کی عبادت کرتے ہیں ۔ “ اور لمبی حدیث بیان کی ۔ عباس بن سالم نے کہا کہ ابو سلام نے مجھے ابوامامہ سے ایسے ہی بیان کیا ہے الا یہ کہ مجھ سے کوئی نادانستہ بھول ہو گئی ہو تو اللہ سے استغفار اور توبہ کرتا ہوں ۔
تشریح : فائدہ :(1)اس حدیث میں تین اوقات میں نما زپڑھنا ممنوع قرار دیا گیا ہے ۔ نماز فجر کے بعد ’عین نصف النہار (زوال ) کے وقت اور نماز عصر کے بعد ۔دیگر احادیث میں ہے کہ سورج کے طلوع اور غروب ہونے کے وقت بھی نماز ممنوع ہے ۔ دیکھیے (صحیح مسلم ’ صلاۃ المسافرین ’ حدیث :831 )ان میں سے عین نصف النہار (زوال )اور سورج کے طلوع وغروب ہونے کے اوقات خاص ممنوع اوقات ہیں جبکہ فجر اور عصر کے بعد سببی نمازیں پڑھی جا سکتی ہیں ۔ بعض علماء اس بات کے قائل ہیں کہ جمعہ کے دن زوال کے وقت بھی نوافل پڑھے جا سکتے ہیں لیکن اس کی بابت جتنی بھی روایات آتی ہیں ’ وہ سب ضعیف ہیں ۔ اس لیے جمعہ کا اختصاص صحیح نہیں ۔ امام ابن تیمیہ او راما م ابن القیم ﷫نے بھی مذکورہ احادیث کی وجہ سے یہی موقف اختیار کیا ہے کہ جمعہ کے دن زوال کے وقت نوافل کی ادائیگی صحیح ہے ۔دیکھیے (مجموعہ فتاویٰ ابن تیمیہ﷫:12/122 ’ بتحقیق عامر الجزار ’ انور الباز ۔ زادالمعاد :1/378 ’ بتحقیق شعیب الارنووط )شیخ البانی ﷫بھی اسی کے قائل ہیں ۔دیکھیے : (الاجوبة النافعة ‘ص:34‘35 )لیکن ان حضرات کے موقف کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں ہے ۔اس لیے جمعہ کے دن بھی زوال کے وقت نوافل پڑھناصحیح نہیں ہے ۔ فائدہ :(1)اس حدیث میں تین اوقات میں نما زپڑھنا ممنوع قرار دیا گیا ہے ۔ نماز فجر کے بعد ’عین نصف النہار (زوال ) کے وقت اور نماز عصر کے بعد ۔دیگر احادیث میں ہے کہ سورج کے طلوع اور غروب ہونے کے وقت بھی نماز ممنوع ہے ۔ دیکھیے (صحیح مسلم ’ صلاۃ المسافرین ’ حدیث :831 )ان میں سے عین نصف النہار (زوال )اور سورج کے طلوع وغروب ہونے کے اوقات خاص ممنوع اوقات ہیں جبکہ فجر اور عصر کے بعد سببی نمازیں پڑھی جا سکتی ہیں ۔ بعض علماء اس بات کے قائل ہیں کہ جمعہ کے دن زوال کے وقت بھی نوافل پڑھے جا سکتے ہیں لیکن اس کی بابت جتنی بھی روایات آتی ہیں ’ وہ سب ضعیف ہیں ۔ اس لیے جمعہ کا اختصاص صحیح نہیں ۔ امام ابن تیمیہ او راما م ابن القیم ﷫نے بھی مذکورہ احادیث کی وجہ سے یہی موقف اختیار کیا ہے کہ جمعہ کے دن زوال کے وقت نوافل کی ادائیگی صحیح ہے ۔دیکھیے (مجموعہ فتاویٰ ابن تیمیہ﷫:12/122 ’ بتحقیق عامر الجزار ’ انور الباز ۔ زادالمعاد :1/378 ’ بتحقیق شعیب الارنووط )شیخ البانی ﷫بھی اسی کے قائل ہیں ۔دیکھیے : (الاجوبة النافعة ‘ص:34‘35 )لیکن ان حضرات کے موقف کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں ہے ۔اس لیے جمعہ کے دن بھی زوال کے وقت نوافل پڑھناصحیح نہیں ہے ۔