Book - حدیث 1273

كِتَابُ التَّطَوُّعِ بَابُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْعَصْرِ صحیح - حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنْ كُرَيْبٍ -مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ-، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَزْهَرَ، وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ، أَرْسَلُوهُ إِلَى عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: اقْرَأْ عَلَيْهَا السَّلَامَ مِنَّا جَمِيعًا، وَسَلْهَا عَنِ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ، وَقُلْ: إِنَّا أُخْبِرْنَا أَنَّكِ تُصَلِّينَهُمَا، وَقَدْ بَلَغَنَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْهُمَا؟ فَدَخَلْتُ عَلَيْهَا، فَبَلَّغْتُهَا مَا أَرْسَلُونِي بِهِ، فَقَالَتْ: سَلْ أُمَّ سَلَمَةَ، فَخَرَجْتُ إِلَيْهِمْ فَأَخْبَرْتُهُمْ بِقَوْلِهَا، فَرَدُّونِي إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ بِمِثْلِ مَا أَرْسَلُونِي بِهِ إِلَى عَائِشَةَ، فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنْهُمَا، ثُمَّ رَأَيْتُهُ يُصَلِّيهِمَا، أَمَّا حِينَ صَلَّاهُمَا,فَإِنَّهُ صَلَّى الْعَصْرَ، ثُمَّ دَخَلَ، وَعِنْدِي نِسْوَةٌ مِنْ بَنِي حَرَامٍ مِنَ الْأَنْصَارِ فَصَلَّاهُمَا، فَأَرْسَلْتُ إِلَيْهِ الْجَارِيَةَ، فَقُلْتُ: قُومِي بِجَنْبِهِ، فَقُولِي لَهُ: تَقُولُ أُمُّ سَلَمَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَسْمَعُكَ تَنْهَى عَنْ هَاتَيْنِ الرَّكْعَتَيْنِ، وَأَرَاكَ تُصَلِّيهِمَا؟ فَإِنْ أَشَارَ بِيَدِهِ,فَاسْتَأْخِرِي عَنْهُ، قَالَتْ: فَفَعَلَتِ الْجَارِيَةُ، فَأَشَارَ بِيَدِهِ، فَاسْتَأْخَرَتْ عَنْهُ، فَلَمَّا انْصَرَفَ,قَالَ: >يَا بِنْتَ أَبِي أُمَيَّةَ! سَأَلْتِ عَنِ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ: إِنَّهُ أَتَانِي نَاسٌ مِنْ عَبْدِ الْقَيْسِ بِالْإِسْلَامِ مِنْ قَوْمِهِمْ، فَشَغَلُونِي عَنِ الرَّكْعَتَيْنِ اللَّتَيْنِ بَعْدَ الظُّهْرِ,فَهُمَا هَاتَانِ<.

ترجمہ Book - حدیث 1273

کتاب: نوافل اور سنتوں کے احکام ومسائل باب: عصر کے بعد نماز جناب کریب مولیٰ ابن عباس سے مروی ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ ، عبدالرحمٰن بن ازہر اور مسور بن مخرمہ ؓ نے مجھے نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ ؓا کی خدمت میں بھیجا اور کہا کہ انہیں ہم سب کی طرف سے سلام کہنا اور ان سے عصر کے بعد دو رکعتوں کا مسئلہ پوچھنا اور کہنا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ یہ رکعتیں پڑھتی ہیں جب کہ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے منع فرمایا ہے ۔ چنانچہ میں ( یعنی کریب ) ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور وہ سب بات پہنچائی جو انہوں نے مجھ سے کہی تھی تو سیدہ عائشہ ؓا نے کہا کہ جاؤ ام سلمہ ؓا سے معلوم کرو ۔ میں ان حضرات کے پاس واپس آیا اور ان کا جواب بتایا تو انہوں نے مجھے سیدہ ام سلمہ ؓا کی خدمت میں بھیج دیا ، اس بات کے ساتھ جو انہوں نے مجھے سیدہ عائشہ ؓا کے متعلق کہی تھی ۔ سیدہ ام سلمہ ؓا نے جواب دیا کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو سنا تھا کہ آپ ان سے ( عصر کے بعد نماز سے ) منع فرماتے تھے لیکن میں نے آپ ﷺ کو پڑھتے ہوئے پایا ۔ ( ایک دن ) آپ ﷺ عصر کی نماز پڑھا کر تشریف لائے اور میرے ہاں انصار کے قبیلہ بنی حرام کی کچھ عورتیں بیٹھی تھیں ، آپ ﷺ نے یہ رکعتیں پڑھیں تو میں نے خادمہ کو آپ ﷺ کے پاس بھیجا ، میں نے اس سے کہا کہ جا کر آپ ﷺ کے پاس کھڑی ہو جانا اور کہنا کہ ام سلمہ پوچھتی ہیں کہ اے اللہ کے رسول ! میں نے آپ کو سنا ہے کہ آپ ان سے منع فرماتے ہیں اور میں آپ ﷺ کو دیکھتی ہوں کہ آپ ﷺ انہیں پڑھ رہے ہیں ؟ اگر آپ ﷺ اپنے ہاتھ سے اشارہ فر دیں تو ان سے ذرا دور ہو جانا ۔ چنانچہ خادمہ نے ایسے ہی کیا تو آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا تو وہ پیچھے ہٹ گئی ۔ جب آپ ﷺ فارغ ہوئے تو فرمایا ” اے دختر بنی امیہ ! تو نے عصر کے بعد کی ان دو رکعتوں کے متعلق پوچھا ہے تو بات یہ ہے کہ میرے پاس قبیلہ عبدالقیس کے کچھ لوگ اپنی قوم کا اسلام لے کر آئے اور انہوں نے مجھے ظہر کی بعد کی رکعتوں سے مشغول کر دیا ۔ تو یہ وہی دو رکعتیں ہیں ۔
تشریح : فائدہ و مسائل : (1)ظہر کی پچھلی سنتیں مؤکدہ سنتوں میں ہیں اور ان کا پڑھنا مستحب ہے ۔ (2)ممنوع وقت میں کسی مشروع سبب سے نماز پڑھنا جائز ہے ۔ (3)عصر کےبعد ان رکعات کی ہمیشگی نبی علیہ الصلاۃ والسلام کی خصوصیت تھی ۔ (4)حضرت عائشہ ؓ کا مسئلے کی تحقیق میں حضرت ام سلمہؓ کی طرف تحویل کرنا ’ ان آداب میں سے ہے کہ اعلم او راہل فضل کی طرف مراجعت کی جائے ۔ فائدہ و مسائل : (1)ظہر کی پچھلی سنتیں مؤکدہ سنتوں میں ہیں اور ان کا پڑھنا مستحب ہے ۔ (2)ممنوع وقت میں کسی مشروع سبب سے نماز پڑھنا جائز ہے ۔ (3)عصر کےبعد ان رکعات کی ہمیشگی نبی علیہ الصلاۃ والسلام کی خصوصیت تھی ۔ (4)حضرت عائشہ ؓ کا مسئلے کی تحقیق میں حضرت ام سلمہؓ کی طرف تحویل کرنا ’ ان آداب میں سے ہے کہ اعلم او راہل فضل کی طرف مراجعت کی جائے ۔