Book - حدیث 1262

كِتَابُ التَّطَوُّعِ بَابُ الِاضْطِجَاعِ بَعْدَهَا صحيح لكن ذكر الحديث والاضطجاع قبل ركعتي الصبح شاذ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ سَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَضَى صَلَاتَهُ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ نَظَرَ,فَإِنْ كُنْتُ مُسْتَيْقِظَةً، حَدَّثَنِي، وَإِنْ كُنْتُ نَائِمَةً أَيْقَظَنِي، وَصَلَّى الرَّكْعَتَيْنِ، ثُمَّ اضْطَجَعَ، حَتَّى يَأْتِيَهُ الْمُؤَذِّنُ فَيُؤْذِنَهُ بِصَلَاةِ الصُّبْحِ، فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، ثُمَّ يَخْرُجُ إِلَى الصَّلَاةِ.

ترجمہ Book - حدیث 1262

کتاب: نوافل اور سنتوں کے احکام ومسائل باب: فجر کی سنتوں کے بعد لیٹ جانا ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ آخر رات میں جب اپنی نماز مکمل فر لیتے تو دیکھتے ، اگر میں جاگ رہی ہوتی تو مجھ سے باتیں کرنے لگتے اور اگر سوئی ہوتی تو جگا دیتے اور دو رکعتیں پڑھتے ، پھر لیٹ جاتے ، حتیٰ کہ آپ کے پاس مؤذن آ کر آپ ﷺ کو صبح کے وقت کی اطلاع دیتا ، پھر آپ ہلکی سی دو رکعتیں پڑھتے ، پھر نماز کے لیے نکل جاتے ۔
تشریح : فوائد و مسائل :(1)اس حدیث میں وتروں کے بعد گفتگو کرنے اور دو رکعتیں پڑھ کر لیٹ جانے کا ذکر ہے ۔ جس سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ فجر کی دو سنتوں کے بعد لیٹنا سنت نہیں ہے ’نبی ﷺ تو یوں ہی استرحت کے لیے لیٹ جاتےتھے ’کبھی نماز تہجد کے بعد (جیسا کہ اس حدیث میں ہے ) اور کبھی فجر کی سنتوں کے بعد ۔لیکن یہ استدلال اس لیے صحیح نہیں کہ اس حدیث میں گفتگو کرنے اور وتروں کے بعدلیٹنے والی بات محفوظ نہیں ہے یعنی ایک راوی کو وہم ہواہے ’جب کہ دوسرے تمام راویوں نے لیٹنے کاذکر کی سنتوں کے بعد ہی کیاہے ۔ اس لیے فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنے کو غیر مستحب قرار دینا صحیح نہیں ہے ۔ ملاحظہ ہو : (فتح الباری ’باب من تحدث بعد الرکعتین ولم یضطجع:3/56)علاوہ ازیں شیخ البانی ﷫نے بھی فجر کی سنتوں سے پہلے لیٹنے اور گفتگو کرنے کو شاذ قرار دیا ہے ۔ (ضعیف ابو داؤد) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وتروں کےبعد دو رکعتین نفل پڑھنا بھی جائز ہے اور نبی ﷺ نے جو یہ فرمایا ہے کہ ‘‘تم وتر کو اپنی رات کی آخری نماز بناؤ ’’ تویہ حکم وجوب کے طور پر نہیں ’ استحباب کے طور پر ہے ۔ (مرعاۃ المفاتیح) فوائد و مسائل :(1)اس حدیث میں وتروں کے بعد گفتگو کرنے اور دو رکعتیں پڑھ کر لیٹ جانے کا ذکر ہے ۔ جس سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ فجر کی دو سنتوں کے بعد لیٹنا سنت نہیں ہے ’نبی ﷺ تو یوں ہی استرحت کے لیے لیٹ جاتےتھے ’کبھی نماز تہجد کے بعد (جیسا کہ اس حدیث میں ہے ) اور کبھی فجر کی سنتوں کے بعد ۔لیکن یہ استدلال اس لیے صحیح نہیں کہ اس حدیث میں گفتگو کرنے اور وتروں کے بعدلیٹنے والی بات محفوظ نہیں ہے یعنی ایک راوی کو وہم ہواہے ’جب کہ دوسرے تمام راویوں نے لیٹنے کاذکر کی سنتوں کے بعد ہی کیاہے ۔ اس لیے فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنے کو غیر مستحب قرار دینا صحیح نہیں ہے ۔ ملاحظہ ہو : (فتح الباری ’باب من تحدث بعد الرکعتین ولم یضطجع:3/56)علاوہ ازیں شیخ البانی ﷫نے بھی فجر کی سنتوں سے پہلے لیٹنے اور گفتگو کرنے کو شاذ قرار دیا ہے ۔ (ضعیف ابو داؤد) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وتروں کےبعد دو رکعتین نفل پڑھنا بھی جائز ہے اور نبی ﷺ نے جو یہ فرمایا ہے کہ ‘‘تم وتر کو اپنی رات کی آخری نماز بناؤ ’’ تویہ حکم وجوب کے طور پر نہیں ’ استحباب کے طور پر ہے ۔ (مرعاۃ المفاتیح)