Book - حدیث 118

كِتَابُ الطَّهَارَةِ بَابُ صِفَةِ وُضُوءِ النَّبِيِّﷺ صحیح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى الْمَازِنِيِّ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَاصِمٍ وَهُوَ جَدُّ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى الْمَازِنِيِّ هَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تُرِيَنِي كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ نَعَمْ فَدَعَا بِوَضُوءٍ فَأَفْرَغَ عَلَى يَدَيْهِ فَغَسَلَ يَدَيْهِ ثُمَّ تَمَضْمَضَ وَاسْتَنْثَرَ ثَلَاثًا ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا ثُمَّ غَسَلَ يَدَيْهِ مَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ ثُمَّ مَسَحَ رَأْسَهُ بِيَدَيْهِ فَأَقْبَلَ بِهِمَا وَأَدْبَرَ بَدَأَ بِمُقَدَّمِ رَأْسِهِ ثُمَّ ذَهَبَ بِهِمَا إِلَى قَفَاهُ ثُمَّ رَدَّهُمَا حَتَّى رَجَعَ إِلَى الْمَكَانِ الَّذِي بَدَأَ مِنْهُ ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَيْهِ

ترجمہ Book - حدیث 118

کتاب: طہارت کے مسائل باب: نبی ﷺ کے وضو کا بیان عمرو بن یحییٰ مازنی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد ( یحییٰ مازانی ) نے سیدنا عبداللہ بن زید بن عاصم ؓ سے کہا ، اور یہ عمرو بن یحییٰ کے دادا ہیں ، کیا آپ مجھے دکھا سکتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وضو کیسے کیا کرتے تھے ؟ عبداللہ بن زید نے کہا : ہاں ! چنانچہ انہوں نے وضو کا پانی منگوایا اور اپنے دونوں ہاتھوں پر ڈالا اور ہاتھ دھوئے ، پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈال کر جھاڑا تین بار ، پھر چہرہ دھویا تین بار ، پھر دونوں ہاتھ دھوئے کہنیوں تک دو دو بار ۔ پھر دونوں ہاتھوں سے سر کا مسح کیا اور انہیں آگے لائے اور پیچھے لے گئے ، سر کے اگلے حصے سے شروع کیا اور گدی تک لے گئے ، پھر انہیں واپس لائے اور وہاں تک لے آئے جہاں سے شروع کیا تھا ، پھر اپنے دونوں پاؤں دھوئے ۔
تشریح : فوائد و مسائل: (1) خیرالقرون میں لوگ دین کی باتوں کو اہتمام سے سیکھتے اور سکھاتے تھے۔ (2) کچھ اعضائے وضو کو تین بار اور کچھ کو دوبار دھونا بھی جائز ہے۔ (3) مسح کا آسان مسنون طریقہ قابل توجہ ہے، صرف اگلے حصے کا مسح یا چند بالوں کو چھو لینا کافی نہیں۔ بلکہ دونوں ہاتھوں کو سرکے اگلے حصے سے شروع کر کے پچھلے حصے گدی تک اور پھر گدی سے سر کے اگلے حصے تک واپس لے آنا چاہیے، جہاں سے شروع کیا تھا۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ گدی کے نیچے گردن کے الگ مسح کے بارے میں قطعاً کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔ گردن کے مسح کی روایت کے متعلق امام نووی فرماتے ہیں: گردن کے مسح کی حدیث بالاتفاق ضعیف ہے۔ فوائد و مسائل: (1) خیرالقرون میں لوگ دین کی باتوں کو اہتمام سے سیکھتے اور سکھاتے تھے۔ (2) کچھ اعضائے وضو کو تین بار اور کچھ کو دوبار دھونا بھی جائز ہے۔ (3) مسح کا آسان مسنون طریقہ قابل توجہ ہے، صرف اگلے حصے کا مسح یا چند بالوں کو چھو لینا کافی نہیں۔ بلکہ دونوں ہاتھوں کو سرکے اگلے حصے سے شروع کر کے پچھلے حصے گدی تک اور پھر گدی سے سر کے اگلے حصے تک واپس لے آنا چاہیے، جہاں سے شروع کیا تھا۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ گدی کے نیچے گردن کے الگ مسح کے بارے میں قطعاً کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔ گردن کے مسح کی روایت کے متعلق امام نووی فرماتے ہیں: گردن کے مسح کی حدیث بالاتفاق ضعیف ہے۔