Book - حدیث 1096

کِتَابُ تَفْرِيعِ أَبْوَابِ الْجُمُعَةِ بَابُ الرَّجُلِ يَخْطُبُ عَلَى قَوْسٍ حسن حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا شِهَابُ بْنُ خِرَاشٍ، حَدَّثَنِي شُعَيْبُ بْنُ زُرَيْقٍ الطَّائِفِيُّ، قَالَ: جَلَسْتُ إِلَى رَجُلٍ -لَهُ صُحْبَةٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُقَالُ لَهُ: الْحَكَمُ بْنُ حَزْنٍ الْكُلَفِيُّ-، فَأَنْشَأَ يُحَدِّثُنَا، قَالَ: وَفَدْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَابِعَ سَبْعَةٍ، أَوْ تَاسِعَ تِسْعَةٍ، فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! زُرْنَاكَ فَادْعُ اللَّهَ لَنَا بِخَيْرٍ، فَأَمَرَ بِنَا، أَوْ أَمَرَ لَنَا بِشَيْءٍ مِنَ التَّمْرِ، وَالشَّأْنُ إِذْ ذَاكَ دُونٌ، فَأَقَمْنَا بِهَا أَيَّامًا, شَهِدْنَا فِيهَا الْجُمُعَةَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ مُتَوَكِّئًا عَلَى عَصًا، أَوْ قَوْسٍ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ, كَلِمَاتٍ خَفِيفَاتٍ طَيِّبَاتٍ مُبَارَكَاتٍ، ثُمَّ قَالَ: >أَيُّهَا النَّاسُ! إِنَّكُمْ لَنْ تُطِيقُوا -أَوْ لَنْ تَفْعَلُوا- كُلَّ مَا أُمِرْتُمْ بِهِ، وَلَكِنْ سَدِّدُوا وَأَبْشِرُوا<. قَالَ أَبُو عَلِيٍّ سَمِعْت أَبو دَاود: قَالَ ثَبَّتَنِي فِي شَيْءٍ مِنْهُ بَعْضُ أَصْحَابِنَا وَقَدْ كَانَ انْقَطَعَ مِنَ الْقِرْطَاسِ.

ترجمہ Book - حدیث 1096

کتاب: جمعۃ المبارک کے احکام ومسائل باب: خطیب کا خطبے میں کمان سے سہارا لینا شعیب بن رزیق طائفی بیان کرتے ہیں کہ میں ایک صاحب کے ہاں بیٹھا جنہیں رسول اللہ ﷺ کی صحبت حاصل تھی ۔ انہیں حکم بن حزن کلفی کہا جاتا تھا ۔ وہ ہم سے بیان کرنے لگے کہ میں ایک وفد میں رسول اللہ ﷺ کے ہاں حاضر ہوا ۔ میں سات میں سے ساتواں یا نو میں سے نواں فرد تھا ۔ ہم آپ ﷺ کے پاس آئے تو ہم نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہم آپ کی زیارت کے لیے آئے ہیں ، ہمارے لیے دعائے خیر فرمائیے ۔ آپ نے ہمارے لیے کسی قدر کھجوروں کا حکم دیا ، حالت ان دنوں بہت کمزور تھی ۔ ہم آپ کے ہاں کئی دن مقیم رہے ۔ ہمیں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جمعہ پڑھنے کا موقع بھی ملا ۔ آپ ﷺ ایک لاٹھی یا کمان کا سہارا لیے ہوئے کھڑے ہوئے ۔ آپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی ۔ آپ کے الفاظ مختصر ، پاکیزہ اور بابرکت تھے ۔ پھر فرمایا ” لوگو ! جو احکام تمہیں دیے جاتے ہیں تم ان سب کی طاقت نہیں رکھتے ہو ، یا انہیں ہرگز نہیں کر سکتے ہو ، لیکن استقامت و اعتدال اختیار کرو اور خوش ہو جاؤ ۔ “ جناب ابوعلی ( لؤلؤی ، تلمیذ امام ابوداؤد ) کہتے ہیں کہ میں نے امام ابوداؤد ؓ سے سنا ، وہ کہتے تھے کہ اس حدیث کا کچھ حصہ مجھے میرے ساتھیوں نے یاد کرایا ہے جو کہ میرے کاغذ سے ضائع ہو گیا تھا ۔
تشریح : متبع سنت علماء صلحاء اور باعمل لوگوں سے محض اللہ تعالیٰ کی رضا کےلئےمحبت کرنا نہایت قابل قدر او بلندی درجات کا حامل عمل ہے۔ایسے لوگوں سے خود باری تعالیٰ محبت کرتا ہے۔اور روز قیامت ایسے لوگوں کو اللہ عزوجل کا خصوصی سایہ میسر ہوگا۔(اللهم اجعلنا منهم)آمین۔(صحیح مسلم حدیث 2566۔2527)2۔اصحاب خیر کی زیارت میسر آئے تو ان سے دعائے خیر کرانی چاہیے یہ مستحب عمل ہے۔3۔حسب حال مہمانوں کی عمدہ خدمت ان کا حق ہے۔4۔خطبہ میں عصاوغیرہ لے کر کھڑے ہونا مستحب ہے۔5۔عام انسانوں کےلئے نا ممکن ہے۔کہ شریعت کے تمام تر احکام پر عمل پیرا ہوسکیں لیکن حسب امکان غفلت وکسل مندی سے پرہیز کرنا چاہیے۔اعمال صالحہ پراستقامت اور میانہ روی کو معمول بنانا ضرور ی ہے۔6۔محدثین اپنی شخصی فردگزاشتیں بھی بیان کردیاکرتے تھے تاکہ لوگ انہیں معصوم نہ سمجھنے لگیں۔ متبع سنت علماء صلحاء اور باعمل لوگوں سے محض اللہ تعالیٰ کی رضا کےلئےمحبت کرنا نہایت قابل قدر او بلندی درجات کا حامل عمل ہے۔ایسے لوگوں سے خود باری تعالیٰ محبت کرتا ہے۔اور روز قیامت ایسے لوگوں کو اللہ عزوجل کا خصوصی سایہ میسر ہوگا۔(اللهم اجعلنا منهم)آمین۔(صحیح مسلم حدیث 2566۔2527)2۔اصحاب خیر کی زیارت میسر آئے تو ان سے دعائے خیر کرانی چاہیے یہ مستحب عمل ہے۔3۔حسب حال مہمانوں کی عمدہ خدمت ان کا حق ہے۔4۔خطبہ میں عصاوغیرہ لے کر کھڑے ہونا مستحب ہے۔5۔عام انسانوں کےلئے نا ممکن ہے۔کہ شریعت کے تمام تر احکام پر عمل پیرا ہوسکیں لیکن حسب امکان غفلت وکسل مندی سے پرہیز کرنا چاہیے۔اعمال صالحہ پراستقامت اور میانہ روی کو معمول بنانا ضرور ی ہے۔6۔محدثین اپنی شخصی فردگزاشتیں بھی بیان کردیاکرتے تھے تاکہ لوگ انہیں معصوم نہ سمجھنے لگیں۔