Book - حدیث 1091

کِتَابُ تَفْرِيعِ أَبْوَابِ الْجُمُعَةِ بَابُ الْإِمَامِ يُكَلِّمُ الرَّجُلَ فِي خُطْبَتِهِ صحیح حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ كَعْبٍ الْأَنْطَاكِيُّ، حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ، قَال:َ لَمَّا اسْتَوَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ قَالَ: >اجْلِسُوا<، فَسَمِعَ ذَلِكَ ابْنُ مَسْعُودٍ، فَجَلَسَ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ، فَرَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: >تَعَالَ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ!<. قَالَ أَبو دَاود: هَذَا يُعْرَفُ مُرْسَلًا إِنَّمَا رَوَاهُ النَّاسُ، عَنْ عَطَاءٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَخْلَدٌ هُوَ: شَيْخٌ.

ترجمہ Book - حدیث 1091

کتاب: جمعۃ المبارک کے احکام ومسائل باب: امام خطبے کہ دوران میں کسی سے بات کرے جناب عطاء بن ابی رباح ، سیدنا جابر ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ( ایک بار ) جمعہ کے روز جب رسول اللہ ﷺ ( منبر پر ) برابر ( تشریف فر ) ہو گئے تو فرمایا ” بیٹھ جاؤ ! “ اسے سیدنا ابن مسعود ؓ نے سنا تو مسجد کے دروازے ہی پر بیٹھ گے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کو دیکھا تو فرمایا ” اے عبداللہ بن مسعود ! آگے آ جاؤ ۔ “ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں اس حدیث کا مرسل ہونا معروف ہے ۔ محدثین کی ایک جماعت اسے عطاء ( تابعی ) سے وہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں ۔ ( یعنی درمیان میں صحابی کا واسطہ متروک ہے ) اور مخلد ” شیخ “ ہے ۔ ( یعنی اس کی حدیث لکھی جاتی ہے ۔ )
تشریح : 1۔خطیب کو حق حاصل ہے کہ سامعین سے حسب ضرورت کوئی بات کرسکتا ہے۔اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعمیل ارشاد نبوی ﷺ کی کیفیت دیکھئے۔کہ حکم سنتے ہی بیٹھ گئے اور قدم تک نہیں بڑھایا۔اس قسم کے لوگوں پر زبان طعن دراز کرنا کہ یہ لوگ بعد از وفات نبی ﷺ (نعوذباللہ( مرتد گئے تھے یا منافق بن گئے تھےاپنے خبث باطن کے اظہار کے علاوہ کچھ نہیں۔2۔احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خطبے کے دوران سامعین کو آپس میں گفتگو کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ مگر خطیب بات کرسکتاہے۔3۔یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے۔کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺکے احکام کی فورا تاخیر تعمیل ضروری ہے۔ 1۔خطیب کو حق حاصل ہے کہ سامعین سے حسب ضرورت کوئی بات کرسکتا ہے۔اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعمیل ارشاد نبوی ﷺ کی کیفیت دیکھئے۔کہ حکم سنتے ہی بیٹھ گئے اور قدم تک نہیں بڑھایا۔اس قسم کے لوگوں پر زبان طعن دراز کرنا کہ یہ لوگ بعد از وفات نبی ﷺ (نعوذباللہ( مرتد گئے تھے یا منافق بن گئے تھےاپنے خبث باطن کے اظہار کے علاوہ کچھ نہیں۔2۔احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خطبے کے دوران سامعین کو آپس میں گفتگو کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ مگر خطیب بات کرسکتاہے۔3۔یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے۔کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺکے احکام کی فورا تاخیر تعمیل ضروری ہے۔