کِتَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ بَابُ إِذَا صَلَّى خَمْسًا صحیح حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ، صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، -قَالَ إِبْرَاهِيمُ:- فَلَا أَدْرِي زَادَ أَمْ نَقَصَ! فَلَمَّا سَلَّمَ قِيلَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَحَدَثَ فِي الصَّلَاةِ شَيْءٌ؟ قَالَ: >وَمَا ذَاكَ؟<، قَالُوا: صَلَّيْتَ كَذَا وَكَذَا، فَثَنَى رِجْلَهُ وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، فَسَجَدَ بِهِمْ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، فَلَمَّا انْفَتَلَ, أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-، فَقَالَ: >إِنَّهُ لَوْ حَدَثَ فِي الصَّلَاةِ شَيْءٌ أَنْبَأْتُكُمْ بِهِ، وَلَكِنْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ، فَإِذَا نَسِيتُ فَذَكِّرُونِي<، وَقَال:َ >إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ, فَلْيَتَحَرَّ الصَّوَابَ، فَلْيُتِمَّ عَلَيْهِ، ثُمَّ لِيُسَلِّمْ، ثُمَّ لِيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ.
کتاب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل
باب: جب پانچ رکعتیں پڑھ جائے؟
سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھائی ‘ ابراہیم نے کہا معلوم نہیں اس میں کوئی کمی کر دی یا بیشی ۔ جب سلام پھیرا تو آپ ﷺ سے کہا گیا : اے اﷲ کے رسول ! کیا نماز کے متعلق کوئی نیا حکم آیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ” کیا ہوا ؟ “ کہنے لگے کہ آپ نے ایسے ایسے نماز پڑھائی ہے ۔ تو آپ ﷺ نے اپنا پاؤں موڑا ‘ قبلہ رخ ہوئے اور انہیں دو سجدے کرائے ‘ پھر سلام پھیرا ۔ جب پھرے تو ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ” بلاشبہ اگر نماز کے متعلق کوئی نیا حکم آتا تو میں تمہیں بتلا دیتا ‘ لیکن میں بشر ہوں ‘ ویسے ہی بھولتا ہوں جیسے تم بھولتے ہو ۔ جب میں بھول جاؤں تو مجھے یاد کرا دیا کرو ۔ “ اور فرمایا ” جب کسی کو نماز میں شک ہو جائے تو چاہیئے کہ غور کرے کہ ٹھیک کیا ہے اور اسی پر اپنی نماز کو مکمل کرے ‘ پھر سلام پھیرے پھر دو سجدے کرے ۔ “
تشریح :
1۔یہ حدیث رسول اللہ ﷺ کے بشر یعنی انسان ہونے پر صریح اور بالکل واضح دلیل ہے اور اس میں رسول اللہ ﷺ کی ذات کے بارے میں (نور من نور للہ) جیسے من گھڑت خودساختہ اور غلط عقیدے کی تردید ہے۔اور بتقاضائے بشریت بعض معاملات میں جناب رسول اللہ ﷺ کووقتی طور پر کوئی نسیان ہوجانا آپ کے لئے کوئی عیب کی بات نہ تھی۔2۔نمازی کو اپنا وہم دور کرنے کے لئے سوچنا چاہیے اور پھر یقین پر بنا کرنی چاہیے۔3۔غلطی نماز فرض میں ہویا نفل میں سجدہ سہو سے اس کی تلافی ضروری ہے۔واللہ اعلم۔
1۔یہ حدیث رسول اللہ ﷺ کے بشر یعنی انسان ہونے پر صریح اور بالکل واضح دلیل ہے اور اس میں رسول اللہ ﷺ کی ذات کے بارے میں (نور من نور للہ) جیسے من گھڑت خودساختہ اور غلط عقیدے کی تردید ہے۔اور بتقاضائے بشریت بعض معاملات میں جناب رسول اللہ ﷺ کووقتی طور پر کوئی نسیان ہوجانا آپ کے لئے کوئی عیب کی بات نہ تھی۔2۔نمازی کو اپنا وہم دور کرنے کے لئے سوچنا چاہیے اور پھر یقین پر بنا کرنی چاہیے۔3۔غلطی نماز فرض میں ہویا نفل میں سجدہ سہو سے اس کی تلافی ضروری ہے۔واللہ اعلم۔