کِتَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ بَابُ فِي السَّلَامِ صحیح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ تَمِيمٍ الطَّائِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالنَّاسُ رَافِعُوا أَيْدِيهِمْ قَالَ زُهَيْرٌ أُرَاهُ قَالَ فِي الصَّلَاةِ، فَقَال:َ >مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ, كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ, أُسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ.
کتاب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل
باب: (اختتام نمازپر)سلام پھیرنے کے احکام ومسائل
سیدنا جابر بن سمرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور لوگ اپنے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے ۔ زہیر نے کہا : میرا خیال ہے کہ شیخ نے کہا تھا کہ نماز میں ، تو آپ ﷺ نے فرمایا ” مجھے کیا ہے کہ میں تمہیں دیکھ رہا ہوں ، تم اپنے ہاتھ اٹھاتے ہو جیسے کہ سرکش گھوڑوں کی دمیں ہوں ۔ نماز میں سکون اختیار کیا کرو ۔ “
تشریح :
1۔نماز میں ظاہرا وباطنا خشوع وخضوع کا اہتمام کرنا واجب ہے۔لایعنی حرکات ناجائز اورحرام ہیں۔نماز اسی طرح ادا کرنی چاہیے۔جیسے کہ رسول اللہﷺنے پڑھ کر دیکھائی اورصحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے سیکھی ہے۔2۔مذکورہ بالا حدیث صحیح مسلم (حدیث 430 )اور سنن نسائی (حدیث 1327)میں بھی آئی ہے۔اور صحیح حدیث ہے اور ان معروف دلائل میں سے ایک ہے۔ جو برادران احناف رکوع کے رفی الیدین کے رد وانکا میں بڑے اعتماد سے پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ امام ابو دائود ۔امام مسلم۔اور امام نووی اسے سلام کے باب میں لائے ہیں۔اورصحیح استدلال یہ ہے کہ تشہد میں سلام کے موقع پر ہاتھوں سے اشارہ کرنامنع ہے۔کیونکہ اس حدیث میں اسی موقع پر ہاتھوں کے ساتھ اشارہ کر کے سلام کرنے سے روکا گیا ہے۔نہ کہ مطلقا ہاتھ اٹھانے (رفع الیدین کرنے) سے امام بخاری جزء رفع الیدین میں فرماتے ہیں کہ (رکوع کے رفع الیدین کے انکار میں ) کچھ علماء کا حدیث جابر بن سمرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے استدلال صحیح نہیں ہے۔یہ در حقیقت تشہد کی بات ہے۔ نہ کہ قیام کی کیونکہ کچھ لوگ ایک دوسرے پر ہاتھ اٹھا کر سلام کیا کرتے تھے۔تو نبی ﷺ نے انھیں تشہد میں ہاتھ سے اشارہ کرنے سے منع فرمایا۔اور جس آدمی کو علم کاکوئی حصہ ملا ہے۔وہ اس حدیث کو (رکوع کے رفع الیدین کے انکار کی) دلیل نہیں بنا سکتا۔یہ حدیث مشہور معروف ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔اگر ایسا بات ہوتی جیسا کہ ان کا مزعومہ استدلال ہے (کہ ہاتھ اٹھانے مطلقا منع ہیں)تو پہلی تکبیر تحریمہ اورتکبیرات عید میں بھی رفع الیدین ممنوع ہوتا۔کیونکہ حدیث میں کسی بھی رفع الیدین کا استثنیٰ نہیں ہے۔اور جناب مسعر کی روایت میں آیا ہے۔ کہ نمازی کو چاہیے اپنا ہاتھ اپنی ران پر رکھے پھر سلام کہے (امام بخاری فرماتے ہیں۔)ایسے لوگوں کو اللہ سے ڈرنا چاہیے کہ وہ رسول اللہ ﷺ پر ایسی باتیں بناتے ہیں۔جو آپ نے نہیں فرمائی ہیں۔اللہ عزوجل کا فرمان ہے۔(فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٦٣﴾)(النور۔63) ایسے لوگوں کو ڈرنا چاہیے جو نبی کریم ﷺ کی مخالفت کرتے ہیں۔کہیں انھیں کوئی فتنہ نہ آلے۔یا کسی دردناک عذاب میں نہ مبتلا ہوجایئں۔ انتہیٰ ۔اور ظاہر ہے کہ نبی کریم ﷺ کی ثابت شدہ سنت کی تحقیر اس کا مذاق اوراس کا انکار اپنی دنیا اور عاقبت خراب کرنے والی بات ہے۔اللهم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه)
1۔نماز میں ظاہرا وباطنا خشوع وخضوع کا اہتمام کرنا واجب ہے۔لایعنی حرکات ناجائز اورحرام ہیں۔نماز اسی طرح ادا کرنی چاہیے۔جیسے کہ رسول اللہﷺنے پڑھ کر دیکھائی اورصحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے سیکھی ہے۔2۔مذکورہ بالا حدیث صحیح مسلم (حدیث 430 )اور سنن نسائی (حدیث 1327)میں بھی آئی ہے۔اور صحیح حدیث ہے اور ان معروف دلائل میں سے ایک ہے۔ جو برادران احناف رکوع کے رفی الیدین کے رد وانکا میں بڑے اعتماد سے پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ امام ابو دائود ۔امام مسلم۔اور امام نووی اسے سلام کے باب میں لائے ہیں۔اورصحیح استدلال یہ ہے کہ تشہد میں سلام کے موقع پر ہاتھوں سے اشارہ کرنامنع ہے۔کیونکہ اس حدیث میں اسی موقع پر ہاتھوں کے ساتھ اشارہ کر کے سلام کرنے سے روکا گیا ہے۔نہ کہ مطلقا ہاتھ اٹھانے (رفع الیدین کرنے) سے امام بخاری جزء رفع الیدین میں فرماتے ہیں کہ (رکوع کے رفع الیدین کے انکار میں ) کچھ علماء کا حدیث جابر بن سمرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے استدلال صحیح نہیں ہے۔یہ در حقیقت تشہد کی بات ہے۔ نہ کہ قیام کی کیونکہ کچھ لوگ ایک دوسرے پر ہاتھ اٹھا کر سلام کیا کرتے تھے۔تو نبی ﷺ نے انھیں تشہد میں ہاتھ سے اشارہ کرنے سے منع فرمایا۔اور جس آدمی کو علم کاکوئی حصہ ملا ہے۔وہ اس حدیث کو (رکوع کے رفع الیدین کے انکار کی) دلیل نہیں بنا سکتا۔یہ حدیث مشہور معروف ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔اگر ایسا بات ہوتی جیسا کہ ان کا مزعومہ استدلال ہے (کہ ہاتھ اٹھانے مطلقا منع ہیں)تو پہلی تکبیر تحریمہ اورتکبیرات عید میں بھی رفع الیدین ممنوع ہوتا۔کیونکہ حدیث میں کسی بھی رفع الیدین کا استثنیٰ نہیں ہے۔اور جناب مسعر کی روایت میں آیا ہے۔ کہ نمازی کو چاہیے اپنا ہاتھ اپنی ران پر رکھے پھر سلام کہے (امام بخاری فرماتے ہیں۔)ایسے لوگوں کو اللہ سے ڈرنا چاہیے کہ وہ رسول اللہ ﷺ پر ایسی باتیں بناتے ہیں۔جو آپ نے نہیں فرمائی ہیں۔اللہ عزوجل کا فرمان ہے۔(فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٦٣﴾)(النور۔63) ایسے لوگوں کو ڈرنا چاہیے جو نبی کریم ﷺ کی مخالفت کرتے ہیں۔کہیں انھیں کوئی فتنہ نہ آلے۔یا کسی دردناک عذاب میں نہ مبتلا ہوجایئں۔ انتہیٰ ۔اور ظاہر ہے کہ نبی کریم ﷺ کی ثابت شدہ سنت کی تحقیر اس کا مذاق اوراس کا انکار اپنی دنیا اور عاقبت خراب کرنے والی بات ہے۔اللهم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه)