کتاب: زندگی سے ریٹائرمنٹ - صفحہ 76
لیے کہا،لیکن میجر نہال سنگھ آخر سکھ تھا،اس نے میری بات سنی ان سنی کردی،اور بظاہر قبرستان کے ایک مردے کو بچھو سے بچانے کے لیے دوبارہ گولی داغ دی،پھر ایک شعلہ سا نکلا لیکن بچھو پر کوئی اثر نہ ہوا،اس پر بچھو نعش کو چھوڑ کر ہماری طرف بڑھا،میں نے نہال سنگھ سے کہا کہ اب بھاگو یہاں سے،بچھو کا نعش چھوڑ کر ہماری طرف بڑھنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ ہم نے گھوڑے دوڑا دیئے،خاصی دور آگے جاکر پیچھے نظر ڈالی تو بچھو ہمارے تعاقب میں تیزی سے چلا آرہا تھا،ہم نے گھوڑوں کو پھر ایڑ لگائی،چند میل آگے جاکر ایک ندی سامنے آگئی،جو خاصی گہری معلوم ہوتی تھی،ہم تھوڑی دیر کے لیے رک کر سوچنے لگے کہ ندی میں گھوڑے ڈال دیں یا کنارے کنارے چل کر کوئی پل،گھاٹ وغیرہ تلاش کیا جائے،لیکن ابھی کوئی فیصلہ نہ کرپائے تھے کہ دیکھا وہی بچھو ہمارے قریب پہنچنا ہی چاہتا ہے،سچ تو یہ ہے کہ جنگ آزمودہ اور مسلح فوجی ہونے کے باوجود ہم پر سخت گھبراہٹ طاری ہوگئی،اور ہمارے گھوڑے ٹاپو مارنے لگے،جیسے وہ بھی خوفزدہ ہوگئے ہوں،بچھو کا رخ نہال سنگھ کی طرف تھا،نہال سنگھ نے خوف اور حواس باختگی کے عالم میں اپنا گھوڑا ندی میں ڈال دیا،اس کے تعاقب میں بچھو بھی ندی میں اترگیا،خدا جانے بچھو نے اسے پاؤں یا ٹانگ یا جسم کے کس حصے پر کاٹا کہ گھوڑے نے بھی اس غیر معمولی قسم کی بلائے بے درماں بچھو کی آمد سے خوف محسوس کیا،ا س پر کپکپی طاری ہوگئی،نہال سنگھ نے کربناک چیخ کے ساتھ مجھے پکارا،’’طفیل ! میں ڈوب رہا ہوں،جل رہا ہوں،مجھے بچھو سے بچاؤ،بچاؤ‘‘ میں نے بھی گھوڑے کو ندی میں ڈال دیا اور سہارے کے لیے بایاں ہاتھ نہال سنگھ کی طرف بڑھایا جسے اس نے مضبوطی سے پکڑ لیا،مجھے ایسا محسوس ہوا کہ وہاں