کتاب: زندگی سے ریٹائرمنٹ - صفحہ 74
تواسے یہ دھمکی دے کرچلی گئی۔
’’حفیظ تم نے میرے ساتھ دھوکا کیاہے،میں اس معاملے کواچھال کر اپنے والدین کی مٹی پلید نہیں کرناچاہتی،میں نے اپنا کیس نیلی چھتری والے کی عدالت میں پیش کردیاہے،اوراس کے ساتھ ہی نیلا تھوتھا کھاکراپنی جان دے رہی ہوں،میرے وجودکے اندر پلنے والا ایک ننھاسا وجودبھی نیلی موت مرجائے گا،اور تمہارے لئے یہی بددعاکروں گی کہ خداکروٹ کروٹ تمہیں نیلا عذاب دے،میری اس بات کوجھوٹ نہیں سمجھنا،میں جوکہہ رہی ہوں وہ کرکے بھی دکھاؤں گی۔
حفیظ جٹ نے غزالہ کی دھمکی کو ’’نیلا جھوٹ‘‘سمجھا تھا،اس کاخیال تھاکہ جب غزالہ کاغصہ اترے گاتو سب ٹھیک ہوجائے گا،لیکن کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوا،غزالہ ضد اور بات کی بڑی پکی نکلی،اسی رات اس نے نیلا تھوتھاکھاکر اپنی جان دیدی تھی،حفیظ جٹ کے علاوہ کوئی اس کی موت کے سبب سے واقف نہ تھا،لہٰذا اس کی طرف ایک بھی انگلی نہ اٹھی،مگراس کا ضمیراندر سے کچوکے لگانے لگا،اور بے چینی وبیقراری اس کو ٹوبہ ٹیک سنگھ سے حسین آباد لائی،اور مجبورہوکر اس نے مولوی عمردین کو اپنے رازمیں شریک کرلیا۔اس کے چندماہ بعدہی وہ اس دارفانی سے اٹھ گیا اورہولناک نیلے عذاب قبرسے دوچارہوا۔[1]
محترم مولانا محمد اقبال کیلانی نے اپنی کتاب’’قبر کا بیان‘‘ میں عذاب قبر کے چھے(۶)واقعات بیان کیے ہیں،ان میں سے پہلا واقعہ ہم اپنی کتاب ’’لمحات موت‘‘ میں ذکر کرچکے ہیں،باقی پانچ میں سے تین واقعات درج ذیل ہیں:
[1] ھما اردوڈائجسٹ جنوری ۲۰۱۴،ص:۱۰۲۔