کتاب: زنا کی سنگینی اور اس کے برے اثرات - صفحہ 81
۲: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ الممتحنۃ میں بیان کردہ چھ باتوں کی پابندی کا عہد ازواج مطہرات سے بھی لیا۔
۔۶۔
[حرام سے پاک دامنی] کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا
امام مسلم نے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق روایت نقل کی ہے:
’’أَنَّہُ کَانَ یَقُوْلُ:
’’اَللّٰہُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُکَ الْہُدَیٰ، وَالتُّقٰی، وَالْعَفَافَ،[1]وَالْغِنٰی۔‘‘[2]
[1] امام طبری نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے، کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بیعت لیتے ہوئے خواتین سے کہا گیا: ’’وَلَا یَزْنِیْنَ۔‘‘ [وہ زنا نہیں کریں گی]، تو ہند رضی اللہ عنہا نے کہا: ’’یا رسول اللہ۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔! ’’أَوَ تَزْنِيْ الْحُرَّۃُ؟‘‘ ٭ ’’کیا آزاد عورت زنا کرتی ہے؟ ‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا: ’’لَا، وَاللّٰہِ! مَا تَزْنِيْ الْحُرَّۃُ۔‘‘٭ ٭ ’’نہیں، اللہ تعالیٰ کی قسم! آزاد خاتون زنا نہیں کرتی۔‘‘
تفسیر الکشاف میں ہے: ایک (دوسری) روایت میں ہے: (اس نے کہا): ’’مَا زَنَتْ مِنْہُنَّ امْرَأَۃٌ قَطُّ۔‘‘ ٭٭٭ ’’ان میں سے (تو) کسی عورت نے کبھی بھی زنا نہیں کیا۔‘‘
شیخ ابوبکر جزائری اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’بُعْدُ الْحُرَّۃِ کُلَّ الْبُعْدِ عَنِ الزِّنَا۔‘‘٭٭٭٭ ’’آزاد خاتون کی زنا سے کلی دوری۔‘‘
اب جو عورت اپنے تئیں [لونڈی اور باندی] نہ سمجھنے کے باوجود زنا کرے، اسے کیا نام دیا جائے؟
إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ، إِلَیْہِ الشَّکْوٰی، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ ۔
ـــــــــــــــــــــــــــ
٭ ہند، حضرت معاویہ کی والدہ اور حضرت ابوسفیان کی اہلیہ محترمہ رضی اللہ عنہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے اس سوال میں موجود حیرانی سے معلوم ہوتا ہے، کہ ایک آزاد عورت کا زنا کرنا عرب میں کس قدر عیب کی بات سمجھی جاتی تھی۔
٭٭تفسیر الطبري ۲۸/۵۱۔ نیز ملاحظہ ہو: تفسیر البغوي ۴/۳۳۵؛ والکشاف ۴/۹۵؛ وزاد المسیر ۸/۲۴۴؛ وتفسیر القرطبي ۱۸/۵۱؛ وتفسیر البحر المحیط ۸/۲۵۶؛ وروح المعاني ۲۸/۸۱؛ وتفسیر التحریر والتنویر ۲۸/۱۶۸؛ وہامش زاد المسیر ۸/۲۴۴۔
٭٭٭ ۵؍۹۵۔ ٭٭٭٭ أیسر التفاسیر ۵؍۳۳۴۔
حضرت ہند رضی اللہ عنہا کا واقعہ حضراتِ ائمہ ابو یعلیٰ، ابن سعد، ابن جریر الطبري، ابن عبدالبر ، ابن کثیر ، ہیثمی اور ابن حجر نے ذکر کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: مسند أبي یعلی ، رقم الحدیث ۳۹۸۔ (۴۷۵۴) ، ۸؍۱۹۴۔ ۱۹۵؛ والطبقات الکبریٰ ۸؍۹؛ و تاریخ الطبري ۳؍۶۲؛ والاستیعاب في معرفۃ الأصحاب ۴؍۱۹۲۳؛ والبدایۃ والنہایۃ ۶؍۶۱۶۔ ۶۱۷؛ و مجمع الزوائد ۶؍۳۷؛ و کتاب الإصابۃ في تمییز الصحابۃ ۴؍۴۲۵؛ و فتح الباري ۷؍۱۴۱)۔
حافظ ہیثمی نے ابو یعلٰی کی روایت کے متعلق لکھا ہے، کہ اس کی سند میں روایت کرنے والی ایسی خواتین ہیں، جنہیں میں نہیں جانتا۔ شیخ حسین سلیم اسد نے اس [سند کو ضعیف] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: مجمع الزو ائد ۶؍۳۷؛ و ہامش مسند أبي یعلٰی ۸؍۱۹۵)۔
البتہ حافظ ابن حجر نے صیغہ جزم کے ساتھ تحریر کیا ہے، کہ حضرت ہند رضی اللہ عنہا نے بیعت کے وقت مذکورہ بالا بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رُو برو عرض کی۔ علاوہ ازیں انہوں نے لکھا ہے ، کہ ابن سعد نے شعبی اور میمون بن مہران سے اسے [صحیح مرسل سند] کے ساتھ روایت کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: فتح الباري ۷؍۱۴۱؛ و کتاب الإصابۃ ۴؍۴۲۵)۔
حضرت ہند رضی اللہ عنہا کے مذکورہ بالا واقعہ کے بارے میں غوروخوض میں تعاون پر اپنے محترم بھائی اور دوست ڈاکٹر سہیل حسن کے لیے شکر گزار ہوں۔ جزاہ اللّٰہ تعالیٰ خیرًا۔