کتاب: زنا کی سنگینی اور اس کے برے اثرات - صفحہ 72
ہاتھ سے شہوت پوری کرنا، یہ سب ناجائز اور حرام چیزیں، داخل ہیں۔‘‘[1] ۴: اللہ تعالیٰ نے آنکھوں کے نیچے رکھنے کا حکم دیتے ہوئے [مِنْ أبصارھم] [نگاہوں سے] فرمایا، لیکن شرم گاہوں کی مطلقاً حفاظت کا حکم دیا۔ شیخ سعدی لکھتے ہیں: غور کیجیے، کہ [شرم گاہ کی مطلق حفاظت] کا حکم دیا، کیونکہ کسی وقت بھی اس کی حفاظت ترک کرنا جائز نہیں۔ نگاہ کے بارے میں فرمایا: [مِنْ أَبْصَارِہِمْ] [نگاہوں سے] اس میں لفظ [مِنْ] استعمال فرمایا، جو کہ [کچھ] پر دلالت کرتا ہے، کیونکہ ضرورت کے پیشِ نظر بعض حالتوں میں دیکھنا جائز ہوتا ہے، جیسے کہ گواہ، منگیتر وغیرہ کو دیکھنا۔[2] ۵: {ذٰلِکَ اَزْکٰی لَہُمْ} (ذٰلک) [وہ] یعنی نگاہ نیچے رکھنا اور شرم گاہ کی حفاظت کرنا۔[3] {اَزْکٰی لَہُمْ} [ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے]۔ اس کی تفسیر میں شیخ سعدی رقم طراز ہیں: (وہ) زیادہ سُتھرا، پاکیزہ اور نیک اعمال کو بڑھانے والا ہے، کیونکہ جس نے اپنی نگاہ اور شرم گاہ کی حفاظت کی، وہ اس نجاست سے پاک ہوگیا، جس کے ساتھ بے حیائی کے کام کرنے والے خود کو آلودہ کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں حرام چھوڑنے پر اس کے اعمال پاکیزہ ہوجاتے ہیں۔ مزید برآں جب بندہ شہوت کے داعی کے باوجود اپنی نگاہ اور شرم گاہ کی، حرام اور اس کے مقدمات سے، حفاظت کرتا ہے، تو اس کی دیگر باتوں سے حفاظت زیادہ بلیغ ہوتی ہے۔ (مزید برآں) جب قابلِ حفاظت چیز کا نگہبان اس کی دیکھ بھال کی خاطر
[1] ملاحظہ ہو: تفسیر ابن کثیر ۳/۳۱۰۔ [2] ملاحظہ ہو: التفسیر الکبیر ۲۳/۲۰۵۔ [3] ملاحظہ ہو: معارف القرآن ۶/۳۹۹۔ [4] ملاحظہ ہو: التفسیر الکبیر ۲۳/۲۰۵۔ بعض مفسرین نے شرم گاہوں کو چھپانے کا معنٰی بیان کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: فتح القدیر ۴/۳۳)؛ لیکن عام مفسرین نے عام معنٰی [شرم گاہوں کی حرام کردہ باتوں سے حفاظت] ہی بیان کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: التفسیر الکبیر ۲۳/۲۰۵؛ وتفسیر القرطبي ۱۲/۲۲۳؛ والبحر المحیط ۶/۴۱۲؛ وتفسیر ابن کثیر ۳/۳۱۱۔۳۱۲؛ وفتح القدیر ۴/۳۳؛ وتفسیر التحریر والتنویر ۱۸/۲۰۴؛ وأیسر التفاسیر ۳/۲۳۴)۔