کتاب: زنا کی سنگینی اور اس کے برے اثرات - صفحہ 63
پھر حضرت امام رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ارشادِ باری تعالیٰ: [وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً وَ سَآئَ سَبِیْلًا] بھی اسی قبیل سے ہے۔‘‘[1] شیخ عبد الرحمن سعدی نے تحریر کیا ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے زنا کی قباحت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’[کَانَ فَاحِشَۃً] یعنی اسے شرعی، عقلی اور فطری طور پر بہت بُرا سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کے حق کی بے حرمتی، عورت کی حق تلفی، اس کے کنبے کے حق کی پامالی یا شوہر کی حق تلفی اور اس کے بستر کی بربادی، انساب میں اختلاط اور ان کے علاوہ دیگر مفاسد ہیں۔‘‘[2] ۔۲۔ زنا کی اسلام میں ابتدا ہی سے حرمت اور اس پر سزا شریعتِ اسلامیہ میں بعض برائیاں مختلف مراحل سے گزر کر تدریجاً حرام قرار دی گئیں۔ مثال کے طور پر شراب کی حرمت کا حکم تین مرحلوں میں آیا،[3] لیکن زنا کو
[1] التفسیر القیم ص ۲۳۹۔ تنبیہ: (وساء سبیلا) کی تفسیر میں علامہ ابن حیّان نے لکھا ہے: زنا کی راہ بُری راہ ہے، کیونکہ دوزخ کی آگ کی طرف پہنچاتی ہے۔ (ملاحظہ ہو: تفسیر البحر المحیط : ۶/۳۰)۔ [2] تفسیر السعدي ص ۴۵۷۔ [3] حضراتِ ائمہ أحمد، ابوداؤد، ترمذي اور نسائی نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت نقل کی ہے: ’’بلاشبہ انھوں نے کہا: ’’اَللّٰہُمَّ بَیِّنْ لَنَا فِيْ الْخَمْرِ بَیَانَ شِفَائٍ۔‘‘’’اے اللہ! ہمارے لیے شراب کے بارے میں قطعی حکم بیان فرمائیے۔‘‘  فَنَزَلَتِ الَّتِيْ فِيْ الْبَقَرَۃِ {یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ قُلْ فِیْہِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ} الآیۃ۔ (الآیۃ۲۱۹) سو جو (سورۃ) البقرۃ میں (آیت) ہے، وہ نازل ہوئی [ترجمہ: ’’آپ سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں، کہہ دیجیے: ’’ان دونوں میں بہت بڑا گناہ ہے‘‘] آخر آیت تک۔ فَدُعِیَ عُمَرُ رضی اللّٰه عنہ ، فَقُرِئَتْ عَلَیْہِ۔ عمر رضی اللہ عنہ بلائے گئے اور ان پر وہ (آیت) پڑھی گئی۔ انھوں (عمر رضی اللہ عنہ ) نے (دوبارہ) التجا کی: ’’اے اللہ! ہمارے لیے شراب کے بارے میں فیصلہ کن حکم بیان فرمائیے۔‘‘ فَنَزَلَتِ الَّتِيْ فِيْ النِّسَائِ: {یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنْتُمْ سُکٰرٰی} (الآیۃ۴۳) تو (سورۃ) النساء والی (آیت) نازل ہوئی: [ترجمہ: اے ایمان والو! تم نشہ کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ]۔ فَدُعِيَ عُمَرُ رضی اللّٰه عنہ فَقُرِئَتْ عَلَیْہِ۔ [عمر رضی اللہ عنہ بلائے گئے اور اُن پر وہ (آیت) پڑھی گئی۔ پھر انھوں نے (تیسری مرتبہ) عرض کیا: ’’اے اللہ! ہمارے لیے شراب کے متعلق فیصلہ کن حکم بیان فرمائیے۔‘‘ فَنَزَلَتِ الَّتِيْ فِيْ الْمَآئِدَۃِ: {اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَ الْبَغْضَآئَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ} إلٰی قولہ: {فَہَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَہُوْنَ} (الآیۃ ۹۱)۔ تو (سورۃ) المائدہ والی آیت نازل ہوئی: [ترجمہ: شیطان تو یہی چاہتا ہے، کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمھارے درمیان دشمنی اور بغض ڈال دے] سے لے کر [ترجمہ: سو کیا تم باز آنے والے ہو؟] فَدُعِيَ عُمَرُ ۔ رضی اللّٰه عنہ ۔ فَقُرِئَتْ عَلَیْہِ۔ عمر۔ رضی اللّٰه عنہ ۔ بلائے گئے اور ان پر وہ (آیت) پڑھی گئی۔ فَقَالَ: ’’انْتَہَیْنَا انْتَہَیْنَا۔‘‘سو انھوں نے کہا: ’’ہم باز آگئے، ہم باز آگئے۔‘‘ (المسند، رقم الحدیث ۳۷۸، ۱/۴۴۲۔ ۴۴۳؛ وسنن أبي داود، کتاب الأشربۃ، باب تحریم الخمر، رقم الحدیث ۳۶۶۵، ۱۰/۷۶؛ وجامع الترمذي، أبواب تفسیر القرآن، ومن سورۃ المائدۃ، رقم الحدیث ۳۲۴۳، ۸/۳۲۹۔۳۳۰؛ وسنن النسائي، کتاب الأشربۃ، باب تحریم الخمر، ۸/۲۸۶۔۲۸۷۔ الفاظِ حدیث جامع الترمذي کے ہیں، شیخ البانی نے جامع الترمذي کی روایت کو [صحیح] اور شیخ ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے المسند کی [سند کو صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح سنن الترمذي ۳/ ۴۶؛ وہامش المسند ۱/۴۴۳)۔