کتاب: زنا کی سنگینی اور اس کے برے اثرات - صفحہ 62
۔۱۔ زنا کا عقلی طور پر بہت بُرا فعل ہونا اسلام میں یہ بات طے شدہ ہے، کہ زنا عقلی طور پر ایک بہت قبیح اور شدید ناپسندیدہ حرکت ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً وَ سَآئَ سَبِیْلًا}[1] [اور زنا کے قریب (بھی) نہ جاؤ، بے شک وہ ہمیشہ سے بہت بڑی بے حیائی اور بُرا راستہ ہے] اللہ تعالیٰ نے [زنا] کو، قطع نظر اس بات کے، کہ اس کی ممانعت پہلے سے نازل ہوچکی تھی یا بعد میں نازل ہوئی، [بہت بڑی بے حیائی] قرار دیا۔ علامہ ابوبکر جصاص آیت کی تفسیر لکھتے ہیں: ’’یہ اس بات کی دلیل ہے، کہ حکمِ شریعت سننے سے پہلے بھی [زنا] عقلی طور پر ایک بُرا فعل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کا نام [فاحشہ] [2] [بہت بڑی بے حیائی] رکھا ہے اور نزولِ آیت کے پہلے یا بعد کی حالت کی تخصیص نہیں فرمائی۔‘‘[3] امام ابن قیم نے آیت کریمہ: [قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَ مَا بَطَنَ] [4]کی تفسیر میں لکھا ہے: ’’یہ آیت اس بات کی دلیل ہے، کہ بے حیائی کے کام فی نفسہ ایسے ہیں، کہ عقل انھیں اچھا نہیں سمجھتی۔ اسی لیے انھیں ان کی اپنی ذاتی بُرائی اور بے حیائی کی وجہ سے حرام قرار دیا گیا۔‘‘
[1] سورۃ بني اسرائیل / رقم الآیۃ ۳۲۔ [2] (فَاحِشَۃٌ) سے مراد …بقول علامہ جصاص… جس کی بُرائی بہت فحش اور بہت بڑی ہو اور …بقول علامہ زمخشری… بہت ہی بُری بات۔ (ملاحظہ ہو: أحکام القرآن ۳/۲۰۰؛ والکشاف ۲/۴۴۸؛ وتفسیر البحر المحیط ۶/۳۰)۔ [3] أحکام القرآن ۳/۲۰۰۔ نیز ملاحظہ ہو: تفسیر البحر المحیط ۶/۳۰۔ [4] سورۃ الأعراف / جزء من الآیۃ ۳۳۔ [ترجمہ: کہہ دیجیے میرے رب (تعالیٰ) نے تو صرف بے حیائی کی باتوں کو، ظاہر ہوں یا پوشیدہ، حرام قرار دیا ہے۔]