کتاب: زنا کی سنگینی اور اس کے برے اثرات - صفحہ 209
کہ جب عائشہ رضی اللہ عنہا کو اطلاع ہوئی، کہ تہمت کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو (بھی) پہنچ چکی ہے، تو
’’فَخَرَّتْ مَغْشِیًّا عَلَیْہَا۔ فَمَا أَفَاقَتْ إِلَّا وَعَلَیْہَا حُمّٰی بِنَافِضٍ، فَطَرَحْتُ عَلَیْہَا ثِیَابَہَا، فَغَطَّیْتُہَا۔‘‘[1]
[’’وہ غش کھاکر گر پڑی۔ ہوش میں آئی، تو اُسے کپکپی کے ساتھ بخار تھا۔ میں نے اس پر اس کے کپڑے ڈال کر اسے ڈھانپ دیا۔]
’’فَأَلْقَتْ عَلَيَّ اُمِّيْ کُلَّ ثَوْبٍ فِيْ الْبَیْتِ۔‘‘[2]
[’’سو میری والدہ نے گھر میں موجود ہر کپڑا مجھ پر ڈال دیا‘‘]۔
’’وَرَجَعْتُ إِلٰی أَبَوَيَّ، فَقُلْتُ:
’’أَمَا اتَّقَیْتُمَا اللّٰہَ فِيَّ، وَمَا وَصَلْتُمَا رَحِمِيْ، یَتَحَدَّثُ النَّاسُ بِہٰذَا، وَلَمْ تُعَلِّمَانِيْ۔‘‘[3]
[میں اپنے والدین کے ہاں واپس آئی اور ان سے کہا:
’’آپ (دونوں) نے میرے بارے میں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار نہیں کیا۔ آپ نے میرے ساتھ صلہ رحمی نہیں کی، لوگ میرے متعلق یہ باتیں کر رہے ہیں اور آپ نے مجھے بتلایا نہیں۔‘‘
[1] المرجع السابق، جزء من رقم الحدیث ۴۱۴۱، ۷/۴۳۳۔
[2] یعنی میں روتے روتے جان دے دوں گی۔
[3] حضرت عائشہ کی والدہ محترمہ رضی اللہ عنہما ۔