کتاب: زنا کی سنگینی اور اس کے برے اثرات - صفحہ 197
گواہی قبول نہ کی جائے گی، چاہے وہ اکٹھے ہو کر (گواہی دیں) یا جدا جدا دیں۔‘‘[1]
د: (أبدًا) (کبھی بھی)۔ شیخ الاسلام اس کے متعلق لکھتے ہیں:
’’یہ اس بارے میں نص ہے، کہ بلاشبہ ان بہتان باندھنے والوں کی گواہی کبھی بھی قبول نہ کی جائے گی۔‘‘[2]
توبہ کے بعد ایسے لوگوں کی گواہی قبول کرنے کے بارے میں دو آراء ہیں۔ حضراتِ ائمہ مالک، شافعی اور احمد کے نزدیک تب گواہی قبول کی جائے گی۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک ایسے لوگوں کی گواہی تاعمر مسترد کی جائے گی۔[3]
۶: ارشادِ تعالیٰ {وَّاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُوْنَ} [اور وہ لوگ ہی نافرمان ہیں] کے متعلق علمائے امت کے اقوال ملاحظہ فرمائیے:
ا: شیخ الاسلام نے لکھا ہے:
’’(یہ) ان کے لیے قابلِ مذمت وصف ہے، جو کہ ان کی گواہی کے ردّ کیے جانے کے علاوہ ہے۔‘‘[4]
ب: حافظ ابن کثیر رقم طراز ہیں:
’’یہ کہ وہ فاسق ہیں، عادل نہیں۔ نہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اور نہ ہی لوگوں کے ہاں۔‘‘[5]
ج: قاضی ابوسعود نے قلم بند کیا ہے:
[1] أحکام القرآن ۳/۱۳۳۶۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے لکھا ہے: اللہ تعالیٰ نے جس طرح [زنا] کو سنگین قرار دیا، اسی طرح اس کے ناحق ذکر اور وہ تہمتِ زنا ہے، کو بھی سنگین ٹھہرایا۔ چنانچہ فرمایا: {وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنَاتِ…}۔ (ملاحظہ ہو: دقائق التفسیر ۴/۴۱۱)۔
[2] (متہم): جس شخص پر تہمت لگائی گئی۔
[3] یعنی اُس کی گواہی مسترد کرکے اُسے مکمل سزا دی گئی۔
[4] تفسیر أبي السعود ۶/۱۵۷۔
[5] تفسیر البیضاوي ۲/۱۱۶؛ نیز دیکھئے: تفسیر أبي السعود ۵/۱۵۷۔۱۵۸۔