کتاب: زنا کی سنگینی اور اس کے برے اثرات - صفحہ 183
د: (یُبْغِضُہُمُ اللّٰہُ): یعنی ان سے نفرت اور دشمنی رکھیں گے۔ اور یہ سزا ان کے لیے دنیا و آخرت دونوں میں ہیں۔ واللّٰہ تعالیٰ أعلم۔ ہ: (وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ): یعنی ان ہی کے لیے بہت دردناک عذاب ہے۔ علامہ واحدی اس کی شرح میں لکھتے ہیں: ’’وہ ایسا عذاب ہوگا، جس کی اذیّت ان کے دلوں تک پہنچے گی۔‘‘[1] و: (لَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ): یعنی جنت میں داخل نہیں ہوں گے۔ اس سے مراد ۔ واللہ تعالیٰ أعلم۔ یہ ہے، کہ وہ دیگر اہلِ ایمان کی طرح حساب و کتاب کے بعد سیدھے جنت میں داخل نہیں ہوں گے، بلکہ اپنی کرتوتوں کی سزا پانے کے لیے پہلے دوزخ میں داخل کیے جائیں گے۔ ۲: امام ابن حبان نے دوسری روایت پر حسبِ ذیل عنوان تحریر کیا ہے: [ذِکْرُ وَصْفِ أَقْوَامٍ یُّبْغِضُہُمُ اللّٰہُ جَلَّ وَعَلَا مِنْ أَجْلِ أَعْمَالٍ اِرْتَکَبُوْھَا] [2] [قوموں کے اوصاف کا ذکر، جن سے اللہ تعالیٰ اُن کی کرتوتوں کی بنا پر نفرت اور دشمنی رکھتے ہیں] ۳: پہلی روایت میں ذکر کردہ لوگوں کے عذاب کی سنگینی کی حکمت کے متعلق علامہ قرطبی لکھتے ہیں: ان تینوں کی سزا اس لیے سنگین ہوئی، کیونکہ ان گناہوں کے ارتکاب کا باعث صرف اُن کی ہٹ دھرمی اور اُن گناہوں کے کرنے کو معمولی بات سمجھنا ہے۔
[1] صحیح الترغیب والترہیب، کتاب الحدود وغیرھا، الترہیب من الزنا، رقم الحدیث ۲۳۹۸۔ (۱۲)، ۲/۶۱۴۔ حافظ منذری لکھتے ہیں، کہ اسے (امام) بزار نے (عمدہ سند) کے ساتھ روایت کیا ہے۔ شیخ البانی نے اسے [صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۲/۶۱۴)۔ [2] ملاحظہ ہو: شرح النووي ۳/۱۱۶۔ [3] ملاحظہ ہو: المفہم ۱/۳۰۲۔ [4] ملاحظہ ہو: شرح النووی ۳/۱۸۔