کتاب: زنا کی سنگینی اور اس کے برے اثرات - صفحہ 149
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چور کے متعلق فرمایا: ’’فَاذْہَبُوْا بِہٖ، فَاقْطَعُوْہُ۔‘‘[1] ’’اسے لے جاؤ اور اسے (یعنی اس کا ہاتھ) کاٹ دو۔‘‘ (علاوہ ازیں اقامتِ) حد (کا حکم دینے) میں اجتہاد کی ضرورت ہوتی ہے اور اس میں ظلم کا اندیشہ رہتا ہے۔ اس لیے عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی خاطر ضروری ہے، کہ اسے امام یا اس کا نائب ہی قائم کرے، خواہ اس حد کا تعلق حقوق اللہ سے ہو، جیسے حد زنا یا اس کا تعلق بندے کے حق سے ہو، جیسے تہمت کی حد۔‘‘[2] تنبیہ: حد قائم کرنے والے امام کی عدم موجودگی کی صورت کے متعلق علامہ رازی نے لکھا ہے: ’’إِذَا فُقِدَ الْإِمَامُ فَلَیْسَ لِآحَادِ النَّاسِ إِقَامَۃُ ہٰذِہِ الْحُدُوْدِ، بَلِ الْأَوْلٰی أَنْ یُعَیِّنُوْا وَاحِدًا مِّنَ الصَّالِحِیْنَ لِیَقُوْمَ بِہٖ۔‘‘[3] ’’(اقامتِ حدود والے) امام کے نہ ہونے کی حالت میں عام لوگوں کے لیے ان حدود کا قائم کرنا نہیں۔ بہترین بات یہ ہے، کہ وہ صالحین میں سے ایک شخص کو متعین کریں، تاکہ وہ حد قائم کرے۔‘‘ ۱۲: آیتِ شریفہ کی تفسیر میں امام ابن تیمیہ کا بیان: شیخ الاسلام رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
[1] تفسیر التحریر والتنویر ۱۸/۱۴۷۔ [2] متفق علیہ: صحیح البخاري، کتاب الوکالۃ، باب الوکالۃ في الحدود، جزء من رقمي الحدیثین ۲۳۱۴ و ۲۳۱۵، ۴/۴۹۱۔۴۹۲؛ وصحیح مسلم، کتاب الحدود، باب من اعترف علی نفسہ بالزنا، جزء من رقمي الحدیثین ۲۵۔ (۱۶۹۷/۱۶۹۸)، ۳/۱۳۲۴۔ [3] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اِذْہَبُوْا بِہٖ، فَارْجُمُوْہُ۔‘‘ اسے لے جاؤ اور رجم کردو۔‘‘ (متفق علیہ: صحیح البخاري، کتاب الحدود، باب لا یُرْجم المجنون ولا المجنونۃ، جزء من رقم الحدیث ۶۸۱۵، ۱۲/۱۲۰؛ وصحیح مسلم، کتاب الحدود، باب من اعترف علٰی نفسہ بالزِّنٰی، جزء من رقم الحدیث ۱۶۔ (۱۶۹۱م)، ۳/۱۳۱۸۔