کتاب: زنا کی سنگینی اور اس کے برے اثرات - صفحہ 145
سے پہلے ذکر کرنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے شیخ ابن عاشور نے تحریر کیا ہے: ’’مجرور کی اپنے عامل پر تقدیم کے ساتھ زانی اور زانیہ کے ذکر کا اہتمام کرکے حد قائم کرنے کے لیے خصوصی توجہ دینے کی غرض سے تنبیہ کی گئی ہے۔‘‘ [1] ۸: ترس نہ آنے کو [فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ] کے ساتھ مقید کرنے کی حکمت: ارشادِ باری تعالیٰ [لَا تَاْخُذْکُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ] [تو تمھیں ان پر اللہ تعالیٰ کے دین کے معاملے میں ترس نہ آئے] میں زنا کرنے والوں پر ترس نہ آنے کو [في دین اللہ] کے ساتھ مقیَّد کیا گیا ہے۔ علامہ قرطبی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’أَيْ فِيْ حُکْمِ اللّٰہِ۔‘‘[2] ’’یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم میں۔‘‘ شیخ ابن عاشور اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’[اَلرَّاْفَۃُ] [ترس] کو [فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ ] کے ساتھ معلق کیا، تاکہ یہ معلوم ہوجائے، کہ یہ [شفقت قابلِ تعریف نہیں]، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے دین یعنی احکام کو معطل کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اصلاح کی غرض سے حد مقرر فرمائی ہے، اسی لیے اس کے قائم کرنے میں شفقت فساد ہوگی۔‘‘[3] ۹: [اِِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ] [4]ذکر کرنے کا مقصود: اس بارے میں چار مفسرین کے اقوال ذیل میں ملاحظہ فرمائیے:
[1] ملاحظہ ہو: تفسیر القاسمي ۱۲/۱۲۶۔ [2] ملاحظہ ہو: زاد المسیر ۶/۷۔ پہلا قول حضراتِ ائمہ سعید بن مسیَّب، حسن بصری، زہری اور قتادہ کا اور دوسرا قول مجاہد، شعبی، ابن زید اور دیگر علماء کا ہے۔ نیز ملاحظہ ہو: أحکام القرآن لابن العربي ۳/۱۳۲۶؛ وتفسیر البغوي ۳/۳۲۱؛ والتفسیر الکبیر ۲۳/۱۴۸؛ وتفسیر القرطبي ۱۲/۱۶۵۔۱۶۶؛ وفي ظلال القرآن ۴/۲۴۸۸۔ [3] ملاحظہ ہو: تفسیر ابن کثیر ۳/۲۸۹؛ نیز ملاحظہ ہو: المصباح المنیر تہذیب و تحقیق تفسیر ابن کثیر (اردو) ۴/۲۸۳۔ [4] ملاحظہ ہو: الکشاف ۳/۴۷۔