کتاب: زنا کی سنگینی اور اس کے برے اثرات - صفحہ 134
وَالتَّابِعِیْنَ وَمَنْ بَعْدَھُمْ مِنْ عُلَمَائِ الْأَمْصَارِ فِيْ جَمِیْعِ الْأَعْصَارِ، وَلَا نَعْلَمُ فِیْہِ مُخَالِفًا إِلَّا الْخَوَارِجَ۔‘‘[1] ’’شادی شدہ زانی، مرد یا عورت، کے رجم کا واجب ہونا، یہ صحابہ، تابعین اور ان کے بعد کے سب ملکوں اور سب زمانوں کے عام اہلِ علم کا قول ہے اور اس بارے میں خوارج کے علاوہ کسی اور کے اختلاف کی ہمیں خبر نہیں۔‘‘ ۹: رجم کے حوالے سے محدثین کرام کے دوٹوک اور قطعی موقف سے آگاہی کی خاطر ان کے تحریر کردہ چند عنوانات ذیل میں ملاحظہ فرمائیے: ا: امام بخاری کے تحریر کردہ عنوانات: I: [بَابُ رَجْمِ الْمُحْصِنِ] [2] [شادی شدہ کو رجم کرنے کے متعلق باب] II: [بَابُ لِلْعَاھِرِ الْحَجَرُ] [3] [بدکاری کرنے والے کے لیے پتھر ہونے کے بارے میں باب] یعنی بدکاری کرنے والے کو سنگسار کرنے کے متعلق باب III: [بَابُ الرَّجْمِ فِيْ الْبِلَاطِ] [4]
[1] ملاحظہ ہو: فتح الباري ۱۲/۱۱۹۔ [2] ملاحظہ ہو: فتح الباري ۱۲/۱۱۹۔ [3] صحیح البخاري، کتاب الحدود، رقم الحدیث ۶۸۱۲، ۱۲/۱۱۷۔ نیز ملاحظہ ہو: فتح الباري ۱۲/۱۱۹۔ [4] نیل الأوطار ۷/۲۵۵۔ [5] ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۱۱/۱۹۰۔