کتاب: زنا کی سنگینی اور اس کے برے اثرات - صفحہ 123
[اور کسی قوم میں کبھی بھی زنا عام نہیں ہوتا، مگر ان میں موت (کا واقع ہونا) کثرت سے ہوجاتا ہے۔]
یہ قول اگرچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ہے، لیکن یہ مرفوع حدیث (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان) کے حکم میں ہے، کیونکہ حضراتِ صحابہ اپنی رائے سے ایسی بات نہیں کیا کرتے تھے۔[1]
زنا کی کثرت کے سبب آنے والی عام تباہی اور بربادی کے متعلق امام ابن قیم لکھتے ہیں:
’’زنا عام موت اور مسلسل آنے والی طاعون (کی بیماری) کا سبب ہے۔ جب موسیٰ علیہ السلام کے لشکر میں طوائفیں داخل ہوگئیں اور ان میں بدکاری عام ہوگئی، تو اللہ تعالیٰ نے ان پر طاعون کا مرض مسلط کردیا، جس کی وجہ سے ایک ہی دن میں ستر ہزار آدمی مرگئے۔‘‘[2]
۶: امام احمد نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ (محترمہ) حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے، (کہ) انھوں نے بیان کیا: ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
’’لَا تَزَالُ أُمَّتِيْ بِخَیْرٍ مَا لَمْ یَفْشُ فِیْہِمْ وَلَدُ الزِّنَا، فَإِذَا فَشَا فِیْہِمْ وَلَدُ الزِّنَا، فَیُوْشِکُ أَنْ یَّعُمَّہُمُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ بِعَذَاب۔‘‘[3]
’’میری اُمت اس وقت تک خیر (و بھلائی) کے ساتھ رہے گی، جب تک
[1] المستدرک علی الصحیحین، کتاب الجہاد، ۲/۱۲۶؛ والسنن الکبریٰ، کتاب صلاۃ الاستسقاء، باب الخروج من المظالم…، جزء من رقم الحدیث ۶۳۹۸، ۳/۴۸۳۔ امام حاکم نے اسے [مسلم کی شرط پر صحیح] کہا ہے اور حافظ ذہبی نے ان کے ساتھ موافقت کی ہے۔ (ملاحظہ ہو: المستدرک ۲/۱۲۶؛ والتلخیص ۲/۱۲۶)۔ نیز دیکھئے: سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ، رقم الحدیث ۱۰۷، المجلد الأول۔
[2] سورہ ق/ رقم الآیۃ ۳۷۔ [ترجمہ: یقینا اس میں اس شخص کے لیے ضرور نصیحت ہے، جس کا کوئی دل ہو یا وہ (دل سے) حاضر ہوکر کان لگا کر سنے۔]
[3] الموطأ، کتاب الجہاد، باب ما جاء في الغلول، جزء من رقم الروایۃ ۲۶، ۲/۴۶۰۔ نیز ملاحظہ ہو: السنن الکبریٰ للبیہقي، کتاب الاستسقاء، باب الخروج من المظالم…، رقم الحدیث ۶۳۹۸، ۳/۴۸۳۔