کتاب: زنا کی سنگینی اور اس کے برے اثرات - صفحہ 113
’’یعنی اپنے محارم کی حفاظت کرتے ہوئے۔‘‘ علامہ عظیم آبادی اس کی شرح میں تحریر کرتے ہیں: ’’فِيْ الدَّفْعِ عَنْ بُضْعِ حَلِیْلَتِہٖ أَوْ قَرِیْبَتِہٖ۔‘‘[1] ’’یعنی اپنی بیوی یا قرابت دار خاتون کی شرم گاہ کی حفاظت کرتے ہوئے۔‘‘ ب: اس دفاع میں اگر لڑائی کی ضرورت پیش آئے اور حملہ آور مارا جائے، تو عام اہل علم کے نزدیک دفاع کرنے والے پر نہ گناہ ہوگا اور نہ ہی قصاص و دیّت۔ امام بغوی لکھتے ہیں: ’’ذَہَبَ عَامَّۃُ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا أُرِیْدَ مَالُہٗ أَوْ دَمُہٗ أَوْ أَہْلُہٗ، فَلَہُ دَفْعُ الْقَاصِدِ، وَمُقَاتَلَتُہٗ۔ وَیَنْبَغِيْ أَنْ یَّدْفَعَ بِالْأَحْسَنِ فَالْأَحْسَنِ، فَإِنْ لَّمْ یَمْتَنِعْ إِلَّا بِالْمُقَاتَلَۃِ، فَقَاتَلَہٗ، فَأَتَی الْقَتْلُ عَلٰی نَفْسِہٖ، فَدَمُہُ ھَدَرٌ، وَلَا شَيْئَ عَلَی الدَّافِعِ۔‘‘[2] ’’عام اہل علم کی رائے ہے، کہ اگر آدمی کے مال یا اس کے خون یا اس کے اہل کا قصد کیا جائے، تو اسے قصد کرنے والے کے مقابلے میں دفاع کرنے اور اس کے ساتھ لڑائی کرنے کا حق ہے اور چاہیے، کہ اسے اچھے سے اچھے طریقے سے روکے۔ اگر لڑائی کے بغیر باز نہ آئے اور وہ اس سے لڑائی کرے اور دورانِ لڑائی اگر وہ (یعنی حملہ آور) مارا جائے، تو اس کا خون رائیگاں جائے گا، دفاع کرنے والے کے ذمے کوئی چیز نہ ہوگی۔‘‘ ج: مذکورہ بالا صورت صرف اپنی بیوی اور قرابت دار خواتین کی عزتوں کی
[1] المسند، جزء من رقم الحدیث ۱۶۵۲، ۳/۱۹۰؛ وسنن أبي داود، کتاب السنۃ، باب في قتال اللصوص، جزء من رقم الحدیث ۴۷۵۷، ۱۳/۸۵؛ وجامع الترمذي، أبواب الدیات، باب ما جاء من قتل دون مالہ فہو شہید، ۲/۳۱۶ (ط: دارالکتاب العربي)؛ وسنن النسائي، کتاب تحریم الدم، من قاتل دون أھلہ، ۷/۱۱۶۔ الفاظِ حدیث المسند، ترمذی اور نسائی کے ہیں۔ امام ترمذی نے اسے [حسن صحیح]، شیخ البانی نے [صحیح] اور شیخ ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے المسند کی [سند کو قوی] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: جامع الترمذي ۲/۳۱۶ ۲/۳۱۶؛ وصحیح سنن أبي داود ۳/۹۰۶؛ وصحیح سنن النسائي ۳/۸۵۸؛ وہامش المسند ۳/۱۹۰)۔ [2] مرقاۃ المفاتیح ۷/۸۹۔