کتاب: زنا کے قریب نہ جاؤ - صفحہ 99
کہ نوجوانوں سے بطورِ خاص خطاب اس لیے کیا گیا ہے کہ ان میں نکاح کے لیے داعی قوت موجود ہوتی ہے جب کہ بوڑھوں کی صورتِ حال اس کے برعکس ہوتی ہے اور اگر یہ سبب درمیانی عمر والوں اور بوڑھوں میں بھی موجود ہو تو پھر ان کے لیے بھی یہی حکم ہے۔ [1] بعض علماء کا یہ مذہب [2] ہے کہ نکاح سب کے لیے واجب ہے کیونکہ کتاب و سنت میں اس کے بارے میں حکم آیا ہے، اپنی اس بات کے لیے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ زنا سے بچنا فرض ہے اور اس سے نکاح ہی کے ذریعہ بچا جاسکتا ہے اور جس بات کے ذریعہ غرض تک پہنچا جائے، وہ فرض ہے۔ ‘‘[3] امام ابن حزم رحمہ اللہ بھی ان علماء میں سے ہیں، جو وجوب نکاح کے قائل ہیں، انھوں نے المحلّٰی میں لکھا ہے کہ:’’ جماع پر قادر ہر شخص کے لیے یہ فرض ہے کہ اگر ممکن ہو تو وہ نکاح کرے یا کسی لونڈی کو رکھے یا یہ دونوں کام کرے اور اگر وہ اس سے عاجز ہو تو اسے کثرت سے روزے رکھنے چاہئیں۔ ‘‘ [4] اکثر فقہاء کی رائے میں اس شخص کے لیے نکاح واجب ہے، جسے ترک نکاح کی وجہ سے اپنے بارے میں گناہ میں مبتلا ہوجانے کا اندیشہ ہو، علامہ ابن قدامہ لکھتے ہیں کہ:’’ وجوبِ نکاح کے بارے میں ہمارے اصحاب میں اختلاف ہے، مذہب میں مشہور قول کے مطابق نکاح واجب نہیں ہے الا یہ کہ ترکِ نکاح کی وجہ سے کسی کا اپنے
[1] فتح الباری ۹/ ۱۰۸. [2] ابن قدامہ لکھتے ہیں کہ ابوبکر بن عبدالعزیز نے کہا ہے کہ نکاح واجب ہے، اسے انھوں نے امام احمد رحمہ اللہ سے بھی بیان کیا ہے اور امام داؤد کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ آیت و حدیث کے پیش نظر عمر میں ایک بار واجب ہے۔ (المغنی ۶/ ۴۴۶). [3] مأخوذ از المبسوط، سرخسی ۴/ ۱۹۳، طبع دار المعرفۃ، بیروت، طبع دوم. [4] المحلّٰی ۹/ ۴۴۰.