کتاب: زنا کے قریب نہ جاؤ - صفحہ 98
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کے ایک باب کا عنوان اس طرح قائم فرمایا ہے:’’نکاح کی ترغیب کا باب، کیونکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآئِ۔ ‘‘[1]
امام بخاری رحمہ اللہ کے اس آیت کریمہ سے وجہ استدلال کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ’’ وجہ استدلال یہ ہے کہ یہ امر کا صیغہ ہے، جس کا سب سے کم درجہ استحباب ہے، لہٰذا اس سے ترغیب ثابت ہوگئی۔ ‘‘ [2]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں جیسا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:اے گروہِ جوانان! تم میں سے جس کو اخراجات برداشت کرنے کی استطاعت [3] ہو تو وہ شادی کرلے، اور جسے استطاعت نہ ہو تو وہ روزے رکھے، یہ اس کے لیے قاطع شہوت [4] ہے۔ ‘‘[5]
کیا شادی کرنے کا حکم صرف جوان ہی کے لیے ہے؟ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں
[1] صحیح البخاری مع فتح الباری ۹/ ۱۰۴.
[2] فتح الباری ۹/ ۱۰۴.
[3] اس حدیث کے لفظ ’’ البائۃ ‘‘ کے بارے میں امام نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس بارے میں علماء کے دو قول ہیں کہ ’’ البائۃ ‘‘ سے کیا مراد ہے، ان دونوں اقوال کا مفہوم ایک ہی ہے، زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ ’’الباء ۃ‘‘ کا یہاں لغوی معنی مراد ہے اور وہ ہے جماع، تو اصل عبارت یہ ہوئی کہ جس کو اخراجات کے برداشت کرنے کی قدرت کی وجہ سے جماع کی استطاعت ہو تو اسے شادی کرلینی چاہیے اور اخراجات سے عاجزی کی وجہ سے جسے نکاح کی استطاعت نہ ہو تو اسے روزہ رکھنا چاہیے تاکہ وہ اس کی شہوت کو دور اور اس کی منی کو قطع کرسکے، جس طرح کہ خصی ہونے سے منی منقطع ہوجاتی ہے۔ (شرح النووی ۹/ ۱۷۳).
[4] حدیث میں مذکور لفظ وجاء واؤ کے کسرہ اور مد کے ساتھ ہے، اس کے معنی خصیوں کو کچل دینے کے ہیں، مراد یہ ہے کہ روزہ شہوت اور منی کے شر کو قطع کردے گا، جس طرح خصی ہونا اسے قطع کردیتا ہے۔ (حوالہ مذکور).
[5] صحیح البخاری مع فتح االباری ۹/ ۱۰۸.