کتاب: زنا کے قریب نہ جاؤ - صفحہ 94
تمہید اسلام دین فطرت اور راہ اعتدال ہے۔ اس نے جنسی خواہش کے وجود کا اقرار کیا ہے لیکن جنسی بے راہ روی کے بارے میں یہ ابیقوریہ [1](Epieurernirons)فلسفے کا حامی ہے اور نہ اس رواقی [2](Stoicism)فلسفے کا جو جنسی تقاضوں کو ختم کردینے کا قائل ہے بلکہ اس نے جنسی فطرت کو ازدواجی زندگی کے ساتھ مربوط کردیا ہے، اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو پیدا کیا، تو اس سے اس کی بیوی کو بھی پیدا فرمادیا تاکہ یہ اس سے سکون حاصل کرسکے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْھَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً [3] (اور اسی کے نشانات(اور تصرفات)میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس کی عورتیں پیدا کیں تاکہ ان کی طرف(مائل ہو کر)آرام حاصل کرو اور تم میں محبت اور مہربانی پیدا کردی۔) امام قرطبی رحمہ اللہ نے اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ’’ مرد کا عورت سے پہلا فائدہ اُٹھانا یہ ہے کہ وہ اس سے مل کر جوش قوت سے سکون حاصل کرتا ہے۔ آلۂ تناسل جب برانگیختہ ہوتا ہے، تو پشت کا پانی جوش کے ساتھ اس کی طرف رُخ کرلیتا
[1] ابیقوریہ اس فلسفہ کی طرف نسبت ہے، جسے ابیقوریہ نے ۳۴۳ء میں وضع کیا تھا، جو صرف لذت ہی کو اخلاق اور انسان کی غایت کی بنیاد قرار دیتا ہے. [2] رواقی اس فلسفہ کی طرف نسبت ہے، جسے زینوقبرصی نے ۳۴۲ء میں ایجاد کیا تھا، جو شہوت کو محض ایک شر قرار دیتے ہوئے، اسے ختم کردینے کو واجب قرار دیتا ہے۔ (مأخوذ از کتاب الاسلام والجنس، فتحی یکن ص ۲۳). [3] سورۃ الروم / آیت ۲۱ کا ایک حصہ.