کتاب: زنا کے قریب نہ جاؤ - صفحہ 80
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان ممالک میں شادی کے تھوڑی مدت بعد طلاق کا معاملہ پیش آجاتا ہے، بعض لوگ یہ سوال بھی اُٹھاتے ہیں کہ کیا ان حالات میں مغربی دنیا میں خاندانی نظام باقی بھی رہے گا یا نہیں؟ اس سوال کا جواب بھی ہم مغربی سکالر پیری جلموٹ پر چھوڑتے ہیں، وہ کہتے ہیں:’’ بہت سے نشانات اس بات کی دلیل ہیں کہ ایک معاشرتی ادارے کے طور پر خاندان کو کئی اطراف سے چیلنجوں کا سامنا ہے، ان تبدیلیوں کے رونما ہونے میں اگرچہ سویڈن کا کردار قائدانہ ہے تو دوسرے ممالک کی صورتِ حال بھی اس سے مختلف نہیں ہے خصوصاً ڈنمارک اور ناروے میں جس طرح صورتِ حال سامنے آئی ہے کہ وہاں بچے پیدا کرنے کے لیے خاندان ہی واحد قانونی دائرہ نہیں ہے۔ ‘‘ [1]
ایسی فضا میں خاندان کس طرح باقی رہ سکتا ہے، جس میں جنسی انار کی کا غلبہ ہو، قرآنِ کریم نے چودہ صدیاں قبل واضح کردیا تھا کہ عفت اور فحاش سے اجتناب کے بغیر خاندان کے لیے قیام اور بقا ممکن نہیں ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَّبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَاِیَّاھُمْ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ۔[2]
[1] اتحفاض عدد سکاف أوربا ص ۱۱، الفاظ یہ ہیں:
Accordingly, or numler of feotures seem to indieote or challengoce to the family as an institution in at leost several respeets. It sweeder is the foreen urrer of similiar charges in other countries, as already seems to be true with regard to Denmark and Norrvay, the family might in any ease cease to be the unigue normal frandwork for procreation.
[2] سورۃ الانعام/ آیت ۱۵۱.