کتاب: زنا کے قریب نہ جاؤ - صفحہ 8
ا۔ تدابیر کے معنی: علامہ ابن منظور کی کتاب ’’ لسان العرب ‘‘ میں ہے کہ دَبَّرَ الْاَمْرَ وَتَدَبَّرَہٗ کے معنی کسی چیز کے انجام کو دیکھنے کے ہیں، کسی معاملہ کی تدبیر کے معنی یہ ہیں کہ ہم دیکھیں کہ اس کا انجام کیا ہوگا، تدبیر کے معنی کسی چیز کے بارے میں غور و فکر کرنے کے بھی ہوتے ہیں۔ ابن منظور نے اکثم بن حیفی کے اس قول کو بطور استشہاد پیش کیا ہے، جو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا:’’ اے میرے بیٹو! ان امور کے آخری حصوں پر غور نہ کرو، جن کے ابتدائی حصے بھاگ گئے ہوں۔ ‘‘ تدبیر کے معنی یہ ہیں کہ آدمی اپنے معاملہ پر غور کرے۔ یُدَبِّرُہٗ کے معنی ہیں کہ وہ معاملہ کے انجام پر غور کرتا ہے۔[1] زبیدی کی تاج العروس شرح القاموس المحیط میں ہے کہ تدبیر کے معنی کسی معاملہ کے انجام پر غور کرنے کے ہیں یعنی یہ دیکھنا کہ اس کا انجام کیا ہوگا، جیسا کہ لفظ تدبر کے بھی یہی معنی ہیں[2]۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ تدبیر کے معنی تفکر کے ہیں یعنی دو معرفتوں کو اس لیے حاصل کرنا تاکہ تیسری معرفت حاصل ہوجائے، کہا جاتا ہے ’’ عرف الامر تدبرا ‘‘ یعنی اس نے معاملہ کو آخر تک پہچان لیا۔ جریر نے کہا ہے: وَلَا تَتَّقُوْنَ الشَّرَّ حَتّٰی یُصِیْبَکُمْ وَلَا تَعْرِفُوْنَ الْاَمْرَ اِلاَّ تَدَبُّرًا (تم برائی سے اس وقت تک نہیں بچتے، جب تک تمھیں لاحق نہ ہوجائے اور کسی معاملے کو اس وقت تک پہچان نہیں سکتے، جب تک اس پر غور نہ کرلو) کتاب عزیز میں ہے:اَفَلَمْ یَدَّبَّرُوْا الْقَوْلَ(کیا انھوں نے اس کلام میں غور نہیں کیا)یعنی کیا یہ ان باتوں کو نہیں سمجھتے، جن کے ساتھ انھیں قرآن میں مخاطب کیا گیا ہے، اسی طرح ارشادِ باری تعالیٰ ہے:أَفَـلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ(بھلا یہ لوگ قرآن
[1] لسان العرب لابن منظور، مادہ ’’ دبر ‘‘، ۱/ ۹۴۲. [2] القاموس المحیط، فیروز آبادی، مادہ ’’ دبر ‘‘، ۲/۲۸.