کتاب: زنا کے قریب نہ جاؤ - صفحہ 76
پانچ فی ہزار سے بھی کم تھی۔ [1]
(۲) ان میں سے اکثر ممالک میں شادی کرنے والوں کی تعداد کا گراف مسلسل نیچے گر رہا ہے مثلاً ۱۹۴۶ء سے ۱۹۷۰ء کے دوران سویٹزرلینڈ اور اٹلی میں کم ہونے کی شرح ۱۲ فی صد سے زیادہ تھی، ڈنمارک میں تیرہ فی صد سے زیادہ، سویڈن میں ۱۹ % اور فرانس میں ۲۰ % سے زیادہ تھی۔ یہ شرح شادی کرنے والے مردوں کی نسبت سے ہے، جب کہ عورتوں کی صورتِ حال بھی اس سے زیادہ بہتر نہیں ہے۔ ناروے، بلجیم، اور سویٹزرلینڈ میں عورتوں میں شادی کرنے کے رجحان میں کمی کی شرح ۱۰ فی صد تھی، ڈنمارک میں پندرہ فی صد سے زیادہ، سویڈن میں پچیس فی صد سے زیادہ اور فرانس میں یہ شرح ۱۹ فیصد سے زیادہ تھی۔ شادی کے رجحان میں کمی کی یہ شرح ۱۹۴۶ء سے ۱۹۷۰ء تک کے عرصہ میں تھی، جب کہ ۱۹۴۶ء سے لے کر ۱۹۷۳ء کے عرصہ میں یہ شرح ۵۳ فی صد تک پہنچ گئی تھی۔
۹۔ خاندان کی شکست و ریخت کی طرف پیش رفت:
خاندان کی بنیاد اگر اس بے حد قلیل تعداد پر مبنی ہو، جو شادی کے حق میں ہے اور وہ شادی کو جنسی عمل کی مختلف صورتوں میں سے صرف ایک صورت سمجھتے ہوں، تو جس شادی کا یہ حال ہو، وہ شادی کے دائرہ سے باہر ان کے اور جنسی عمل کے مابین رکاوٹ نہیں بنے گی، [2] اس سے خاندان کا نظام شکست و ریخت کا شکار ہوجائے گا۔ اس
[1] بحوالہ کتاب اتحفاض عدد السکان فی أوربا، ص ۹.
[2] شادی شدہ لوگوں کے شادی کے دائرہ سے باہر کے تعلقات کے بارے میں لندن سے شائع ہونے والے اخبار الشرق الأوسط نے ۱۵ جولائی ۱۹۷۹ء کی اشاعت میں اعداد و شمار دیتے ہوئے لکھا تھا کہ یورپ میں ۷۵ فی صد شوہر اپنی بیویوں کی خیانت کرتے ہیں، اس سے کچھ کم شرح سے عورتیں بھی یہی کام کرتی ہیں، جہاں سے شادی سے پہلے کے تعلقات کا معاملہ ہے، تو ۸۰ سے ۸۵ فی صد مردوں کی گرل فرینڈز ہیں، ہر ایک نے ایک ایک گرل فرینڈ رکھی ہوئی ہے، یہ لوگ اپنی بیویوں کی نسبت اپنی گرل فرینڈز سے کم خیانت کرتے ہیں۔ (بحوالہ مجلہ ’’ الامان ‘‘ لبنان، مؤرخہ ۱۰ محرم ۱۴۰۰ ھ).