کتاب: زنا کے قریب نہ جاؤ - صفحہ 49
وَلْیَشْھَدْ عَذَابِھُمَا طَآئِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ [1]
(اور چاہیے کہ ان کی سزا کے واقت مسلمانوں کی ایک جماعت بھی موجود ہو۔)
قاضی ابو السعود رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ’’ مسلمانوں کی جماعت کی حاضری سے اس کی سزا میں اضافہ ہوگا کیونکہ ذلت و رسوائی بسااوقات جسمانی سزا سے بھی زیادہ عبرت ناک سزا ہوتی ہے۔ جماعت سے مراد اتنے لوگوں کا جمع ہونا ہے، جس سے تشہیر اور زجر و توبیخ کا مقصد حاصل ہوجائے۔ ‘‘[2]
(۲)جلاوطنی:
زانی اگر کنوارا ہو تو اسے اس کی اقامت کی جگہ سے جلاوطن بھی کردیا جائے، جیسا کہ اس حدیث میں ہے، جسے امام مسلم رحمہ اللہ نے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے
[1] سورۃ النور/ آیت ۲ کا ایک حصہ.
[2] تفسیر ابی السعود ۴/ ۹۱، شیخ عبدالرحمن سعدی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ’’ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ زانیوں کو سزا دینے کے وقت مومنوں کا ایک گروہ یا جماعت بھی موجود ہو تاکہ سزا کی تشہیر ہو اور اس سے زانی کو ذلت و رسوائی حاصل ہو اور آئندہ کے لیے وہ باز رہے۔ (تفسیر کلام المنان ۵/۳۸۸) کوڑوں کی سزا کے ساتھ زانی کی جلاوطنی کے بارے میں فقہاء میں اختلاف ہے، جمہور مذہب یہ ہے کہ کوڑوں کے ساتھ اسے جلاوطنی کی سزا بھی دی جائے، خلفاء راشدین حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی e کا یہی قول ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بھی یہی قول ہے، اسی طرح عطاء، طاؤس، سفیان، مالک، ابن ابی لیلیٰ، شافعی، احمد، اسحاق اور ابوثور رحمہم اللہ علیہم اجمعین کا بھی یہی قول ہے جب کہ حماد بن ابی سلیمان، ابوحنیفہ اور محمد بن حسن کا قول یہ ہے کہ جلاوطنی کی سزا نہ دی جائے۔ جمہور کی دلیل متن میں مذکور حدیث عبادہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خادم کو کوڑوں اور جلاوطنی کی سزا دی تھی، جس نے اپنے مالک کی بیوی کے ساتھ زنا کیا تھا۔ (یہ اختصار کے ساتھ تفسیر قرطبی:۵/ ۸۸ سے منقول ہے، تفصیل کتب فقہ میں ملاحظہ فرمائیں۔).