کتاب: زنا کے قریب نہ جاؤ - صفحہ 37
نفرت کرتی رہی ہیں جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے، جسے امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ مسلمان آدمی کا خون درج ذیل تین حالتوں میں سے کسی ایک کے سوا حالل نہیں ہے۔(۱)وہ شخص جس نے شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کیا۔(۲)وہ شخص جس نے کسی انسان کو ناحق قتل کیا اور(۳)وہ شخص جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا۔ ‘‘ (اس حدیث کے بیان کرنے کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا)اللہ کی قسم! میں نے دورِ جاہلیت یا اسلام میں کبھی زنا نہیں کیا، میں نے کسی مسلمان شخص کو قتل نہیں کیا اور جب سے میں اسلام لایا ہوں، میں نے کبھی ارتداد کو اختیار نہیں کیا۔ [1] ۱۳۔ اسلام نے زنا کو ابتداء ہی سے حرام قرار دیا ہے: اسلام نے بعض منکرات کو تدریجاً حرام قرار دیا ہے مثلاً شراب کو تین مرحلوں میں حرام قرار دیا [2] لیکن زنا کو اسلام نے ابتداء ہی سے حرام قرار دیا، یہ بھی اس بات
[1] سنن ابن ماجہ ۲/ ۸۴۷، شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ (صحیح سنن ابن ماجہ ۲/ ۷۷)۔. [2] امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ شراب تین بار حرام قرار دی گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ میں تشریف لائے تو یہاں کے لوگ شراب اور جوئے کا مال کھاتے تھے، انھوں نے ان دونوں چیزوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت کریمہ نازل فرمائی:یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیْھِمَا اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَاِثْمُھُمَا اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِھِمَا … الاٰیۃ (اے پیغمبر لوگ تم سے شراب اور جوئے کا حکم پوچھتے ہیں کہہ دو کہ ان میں نقصان بڑے ہیں اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں مگر ان کے نقصان فائدوں سے کہیں زیادہ ہیں) لوگوں نے کہا کہ شراب ہمارے لیے حرام قرار نہیں دی گئی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ ان میں نقصان بڑے ہیں، لوگ شراب پیتے رہے حتی کہ ایک دن جب مہاجرین میں سے ایک شخص نے اپنے ساتھیوں کو مغرب کی نماز پڑھائی، تو اس نے قرأت میں غلطیاں کیں، تو اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے پہلی آیت سے زیادہ سخت یہ آیت نازل فرمادی:یٰٓـأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوْا الصَّلَاۃَ وَأَنْتُمْ سُکَارٰی حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَلَا جُنُبًا إِلاَّ عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰی تَغْتَسِلُوْا ط وَإِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰی اَوْ عَلٰی سَفَرٍ اَوْجَآئَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآئَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْھِکُمْ وَاَیْدِیْکُمْ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا o (مومنو! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو جب تک (اُن الفاظ کو) جو منہ سے کہو سمجھنے (نہ) لگو، نماز کے پاس نہ جاؤ اور جنابت کی حالت میں بھی (نماز کے پاس نہ جاؤ) جب تک کہ غسل (نہ) کرلو، ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو (اور پانی نہ ملنے کے سبب غسل نہ کرسکو تو تیمم کرکے نماز پڑھ لو) اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی بیت الخلاء سے ہو کر آیا ہو یا تم عورتوں سے ہم بستر ہوئے ہو اور تمھیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی لو اور منہ اور ہاتھوں کا مسح (کرکے تیمم) کرلو۔ بے شک اللہ معاف کرنے والا (اور) بخشنے والا ہے۔) اس کے بعد بھی لوگ شراب پیتے رہے البتہ نماز اس وقت ادا کرتے جب وہ نشہ کی حالت میں نہ ہوتے، پھر اس سے بھی زیادہ سخت یہ آیت نازل ہوئی:یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o (اے ایمان والو! شراب اور جوأ اور بت اور پانے (یہ سب) ناپاک کام اعمال شیطان سے ہیں سو ان سے بچتے رہنا تاکہ نجات پاؤ۔) اس آیت کے نازل ہونے کے بعد اہل ایمان نے کہا کہ اے ہمارے رب! ہم اس سے باز آگئے ہیں! لوگوں نے عرض کیا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کے رستے میں شہید ہوگئے یا اپنے بستروں پر فوت ہوگئے اور وہ شراب پیتے اور جوئے کا مال کھاتے تھے، جب کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ناپاک کام اور اعمال شیطان قرار دیا ہے؟ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمادی:لَیْسَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوْآ اِذَا مَا اتَّقَوا وَّاٰمَنُوْا … الاٰیۃ (جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان پر ان چیزوں کا کچھ گناہ نہیں جو وہ کھا چکے جب کہ انھوں نے پرہیز کیا اور ایمان لائے …) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر ان پر حرمت کا حکم نازل ہوتا تو وہ بھی ان چیزوں کو اسی طرح ترک کردیتے، جس طرح تم نے ترک کردی ہیں۔ (مسند، حدیث نمبر:۸۶۲۰، ۱۴/ ۲۶۷۔ ۲۶۹) شیخ شعیب ارنؤوط اور ان کے رفقاء نے اس حدیث کو ’’ حسن لغیرہ ‘‘ قرار دیا ہے، حاشیہ مسند ۱۴/ ۲۶۹.