کتاب: زنا کے قریب نہ جاؤ - صفحہ 310
ہوگئیں نہ کتنے ہی پاکباز مرد اس کی وجہ سے لڑکوں یا لڑکیوں کے غلام بن گئے، کتنے ہی غیور انسان اس کے سبب مخلوق میں بے غیرت ہوگئے، کتنے ہی صاحب دولت و ثروت اس کے باعث مفلس و قلاش بن گئے، کتنے ہی صحت مند لوگ اس کی وجہ سے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوگئے اور موسیقی کے رسیا لوگوں کو کتنے ہی فکروں اور غموں کا سامنا کرنا پڑا اور انھیں ان تحائف کے قبول کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ [1] ۱۴۔ گانے بجانے اور آلاتِ موسیقی کی حرمت: اسلامی شریعت نے گانے بجانے کو حرام قرار دیا ہے کیونکہ یہ شہوتوں کو بھڑکاتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَھْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّیَتَّخِذَھَا ھُزُوًا اُولٰٓئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ [2] (اور لوگوں میں بعض ایسا ہے جو بے ہودہ حکایتیں خریدتا ہے تاکہ(لوگوں کو)بے سمجھے اللہ کے رستے سے گمراہ کرے اور اس سے استہزاء کرے، یہی لوگ ہیں جن کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا۔) حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ابوصہباء بکری سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ جب ان سے اس مذکورہ بالا آیت کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ اس ذات پاک کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں اس سے مراد گانا ہے، انھوں نے یہ بات تین بار فرمائی۔[3] امام قرطبی رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ اس سے مراد گانا ہے۔ [4]
[1] حوالہ مذکور ۱/ ۲۴۷. [2] سورۃ لقمان / آیت ۶. [3] تفسیر ابن کثیر ۳/ ۴۲۲. [4] تفسیر قرطبی ۱۴/ ۵۱، امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عکرمہ، میمون بن مہران اور مکحول نے بھی اسی طرح کہا ہے۔ امام مجاہد کا بھی یہی قول ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اس آیت کریمہ میں لہو الحدیث سے مراد گانا سننا ہے۔ امام حسن بصری کہتے ہیں کہ لھو الحدیث سے مراد آلاتِ موسیقی اور گانا ہے، قاسم بن محمد نے کہا ہے کہ گانا باطل ہے اور ہر باطل چیز جہنم رسید ہوگی، ابن قاسم کہتے ہیں کہ میں نے امام مالک رحمہ اللہ سے اس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا:ارشادِ باری تعالیٰ ہے:فَمَا ذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلاَّ الضَّلٰلُ (حق کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا ہے) تو کیا وہ حق ہے؟ دیکھئے:حوالہ مذکور ۱۴/ ۵۱۔ ۵۶).