کتاب: زنا کے قریب نہ جاؤ - صفحہ 237
مجید میں یہ آیات نازل فرمادیں: قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُکَ فِیْ زَوْجِھَا … الخ۔[1] یہ آیات کریمہ اس بات کی دلیل ہیں کہ ظہار حرام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے:مُنْکَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُوْرًا(نامعقول اور جھوٹی بات)سے موسوم کیا ہے اور یہ اس لیے کہ مرد جب اپنی بیوی سے ظہار کرتا ہے، تو اس کے لیے اس وقت تک اپنی بیوی کے پاس جانا حرام ہے، جب تک وہ ظہار کا کفارہ ادا نہ کردے کیونکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:فَتَحَیَّرُ رَقَبَۃً مِّنْ قَبْلِ أَنْ یَّتَمَآسَّا(تو(اُن کو)ہم بجز ہونا سے پہلے ایک غلام آزاد کرنا(ضرور)ہے۔)’’ عود ‘‘[2] کی صورت میں بھی ظہار کرنے والے پر کفارہ واجب ہے کیونکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:وَالَّذِیْنَ یُظٰھِرُوْنَ مِنْ نِّسَآئِھِمْ ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا(اور جو لوگ اپنی بیویوں کو ماں کہہ بیٹھیں، پھر اپنے قول سے رجوع کرلیں)اور یہ اس لیے تاکہ اس طرح کی بات دوبارہ نہ کہی جائے۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کفارہ گردن کا آزاد کرنا یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا یا دو ماہ کے متواتر روزے رکھنا اس لیے قرار دیا گیا ہے کیونکہ کفارہ کے مقاصد میں سے ایک یہ بات بھی ہے کہ مکلف کی آنکھوں کے سامنے وہ بات رہے، جو ارتکابِ فعل سے اسے روکے تاکہ اس کے لیے کفارہ لازم نہ ہوجائے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ کفارہ ایک ایسی طاعت کی صورت میں ہو، جسے ادا کرنا بہت مشکل ہو اور جو نفس پر غالب آجائے یا تو اس اعتبار سے کہ وہ مال ہو، جسے خرچ کرنے میں بخل حائل ہو اور یا پھر کفارہ ایسی
[1] سنن ابی داؤد (تحقیق محمد محی الدین عبدالحمید) ۲/ ۲۶۶، طبع دار احیاء السنۃ النبویۃ، شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔ (دیکھئے:صحیح سنن ابی داؤد:۲/ ۴۱۷). [2] ’’ عود ‘‘ کے معنی میں فقہاء میں اختلاف ہے، اہل ظاہر کے نزدیک اس سے مراد الفاظ کا تکرار ہے، جب کہ جمہور فقہاء کے نزدیک اس سے مراد بیوی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی طرف لوٹنا اور اس سے مباشرت کا عزم کرنا ہے۔ (بحوالہ تفسیر آیات الأحکام ، شیخ محمد علی صابونی ۲/ ۵۲۹، اختصار کے ساتھ).