کتاب: زنا کے قریب نہ جاؤ - صفحہ 217
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کرائے کے سانڈ کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ [1]
امیر صنعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حلالہ کی حرمت کی دلیل ہے کیونکہ لعنت کسی حرام کام کرنے والے ہی پر بھیجی جاسکتی ہے اور ہر حرام کام ممنوع ہے، ممانعت فساد عقد کا بھی تقاضا کرتی ہے، لعنت اگرچہ اس کام کے کرنے والے کے لیے ہے لیکن اسے ایسے وصف کے ساتھ معلق لیا گیا ہے، جس کی وجہ سے اس کا حکم کی علت ہونا بھی صحیح ہے۔ [2] حافظ عبداللہ بن ابی شیبہ نے ’’ مصنف ‘‘ میں قبیصہ بن جابر سے اور انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میرے پاس جو حلالہ کرنے والا اور کروانے والا لایا گیا تو میں ان دونوں کو رجم کردوں گا۔ [3] حافظ ابن ابی شیبہ ہی نے عبدالملک بن مغیرہ بن نوفل سے بھی روایت کیا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بیوی کے ساتھ اس کے شوہر کے لیے حلالہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ یہ زنا ہے اور اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ تمھیں پاتے، تو(مار مار کر)تمھیں گم کرادیتے۔ [4] امام عبدالرزاق نے ثوری سے اور انھوں نے عبداللہ بن شریک عادی سے روایت کیا ہے کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا کہ ان سے ایک شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنے چچا کی بیٹی(اپنی بیوی)کو طلاق دے دی، پھر اسے
[1] منقول از تحفۃ الاحوذی ۲/ ۱۸۵، اور ’’ کرایہ کے سانڈ ‘‘ سے اس حدیث کی طرف اشارہ ہے، جسے امام ابن ماجہ نے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا میں تمھیں کرایہ کے سانڈ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ لوگوں نے عرض کیا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ضرور ارشاد فرمائیں، آپ نے فرمایا اس سے مراد حلالہ کرنے والا اور حلالہ کروانے والا ہے۔ (سنن ابن ماجہ ۱/ ۶۲۲۔ ۶۲۳) علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔ (دیکھئے:صحیح سنن ابن ماجہ ۱/ ۳۲۶).
[2] سبل السلام ۲/ ۱۲۷.
[3] مصنف ابن ابی شیبہ ۴/ ۲۹۴، اسے حافظ ابوبکر عبدالرزاق نے بھی مصنف ۶/ ۳۶۵ میں روایت کیا ہے.
[4] مصنف ابن ابی شیبہ ۴/ ۲۹۴، نیز اسے عبدالرزاق نے مصنف ۶/ ۲۶۵ میں بھی ذکر کیا ہے.