کتاب: زنا کے قریب نہ جاؤ - صفحہ 213
کہ متعہ کی رُخصت ہماری حالت جنگ اور خوف میں تھی۔ [1]
۱۱۔ متعہ کی حرمت پر اجماعِ اُمت:
ابتداء میں نکاح متعہ کو جائز قرار دیا گیا تھا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام قرار دے دیا جیساک ہ سابقہ روایات کی روشنی میں یہ بیان کیا جاچکا ہے اور اب اس کی حرمت پر اجماع ہے۔ امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تمام روایات اس بات پر متفق ہیں کہ متعہ کے جواز کا زمانہ براقرار نہیں رہا اور اب یہ حرام ہے اور پھر تمام سلف و خلف کا اس کی حرمت پر اجماع ہے البتہ روافض اس کے جواز کے قائل ہیں اور وہ ناشائستہ التفات ہیں۔ [2] قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ متعہ ایک مدت مقررہ تک نکاح تھا، اس میں میراث بھی نہیں تھی اور بغیر طلاق کے محض مدت کے اختتام سے تفریق ہوجاتی تھی۔ اس کے بعد روافض کے سوا تمام علماء کا اس کی حرمت پر اجماع ہوگیا ہے۔ [3]
۱۲۔ متعہ کے بارے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا مؤقف:
بعض لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما متعہ کو جائز قرار دیتے تھے، تو بات یہ ہے کہ ان کا فتویٰ علی الاطلاق نہیں تھا جیسا کہ یہ لوگ بیان کرتے ہیں کیونکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما صرف حالت ضرورت میں اسے جائز قرار دیتے تھے جیسا کہ مضطر کے لیے مردار، خون اور خنزیر کا گوشت کھانا جائز ہے۔ اس کی وضاحت اس روایت سے
[1] حوالہ مذکور ۹/ ۱۷۲، نیز دیکھئے:السنن الکبریٰ للبیہقی ۷/ ۳۳۷ (ط:دار الکتب العلمیۃ بیروت).
[2] فتح الباری ۹/ ۱۷۳، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن منذر کا یہ قول نقل کیا ہے کہ پہلے لوگوں سے اس بارے میں رُخصت آئی ہے مگر آج بعض رافضیوں کے سوا اور کوئی اسے جائز قرار نہیں دیتا اور اس قول کے کوئی معنی نہیں، جو کتاب اللہ و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہو۔ (حوالہ مذکور ۹/ ۱۷۳).
[3] شرح النووی ۹/ ۱۸۱.