کتاب: زنا کے قریب نہ جاؤ - صفحہ 211
امام مسلم رحمہ اللہ نے سبرہ جہینی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، جب آپ نے یہ فرمایا:’’ لوگو! میں نے تمھیں عورتوں سے متعہ کی اجازت دی تھی مگر اب اللہ تعالیٰ نے اسے روزِ قیامت [1] تک حرام قرار دیا ہے، جس کے پاس متعہ کے لیے کوئی عورت ہو وہ اسے چھوڑ دے اور جو مال تم نے انھیں دیا ہے، وہ ان سے واپس نہ لو۔ [2]
مسلم کی دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ سے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ آج کے اس دن سے لے کر قیامت کے دن تک حرام ہے اور اگر کسی نے(کسی عورت کو)کوئی چیز دی ہو، تو وہ اس سے واپس نہ لے۔ [3]، [4]
امام ابن ماجہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ جب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حکمران بنے، تو آپ نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تین بار متعہ کی اجازت دی تھی اور پھر آپ نے اسے حرام قرار دے دیا۔ اللہ کی قسم! اگر مجھے کسی کے بارے میں علم ہوا کہ وہ شادی شدہ ہونے کے باوجود متعہ کرتا ہے، تو میں اسے پتھروں سے سنگسار کردوں گا۔ الا یہ کہ وہ چار گواہ پیش
[1] (روزِ قیامت تک) الماوردی نے الحاوی میں لکھا ہے کہ آخری مرتبہ آپ نے جو ’’ روزِ قیامت تک ‘‘ کے الفاظ استعمال فرمائے تو یہ اس طرف اشارہ تھا کہ سابقہ حرمت کے بعد جواز تھا مگر اب یہ ابدی اور دائمی حرمت ہے، اس کے بعد قطعاً جواز نہیں ہوگا۔ منقول از فتح الباری ۹/ ۱۷۰.
[2] صحیح مسلم ۲/ ۱۰۲۵.
[3] حوالہ مذکور ۲/ ۱۰۲۷.
[4] مختلف اوقات میں رخصت کے بعد متعہ کی منسوخی کے بارے میں متعدد روایت آئی ہیں، جن کا امام نووی رحمہ اللہ کے بقول خلاصہ یہ ہے کہ ’’ درست اور مختار قول یہ ہے کہ متعہ کی حرمت اور اباحت دو بار تھی، خیبر سے پہلے یہ حلال تھا، پھر خیبر کے بعد حرام ہوگیا، پھر فتح مکہ کے دن جائز قرار دیا گیا، یوم اوطاس سے مراد بھی یہی دن ہے کیونکہ یہ دونوں دن قریب قریب تھے، پھر تین دن بعد اسے روزِ قیامت تک ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام قرار دے دیا گیا اور یہ ابدی و دائمی طور پر حرام ہوگیا ‘‘، شرح النووی ۹/ ۱۸۱.