کتاب: زنا کے قریب نہ جاؤ - صفحہ 206
امیر صفانی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ ولی کے بغیر نکاح صحیح نہیں ہے کیونکہ نفی کے بارے میں اصل یہ ہے کہ اس سے صحت کی نفی ہوتی ہے، کمال کی نفی نہیں۔ [1]
اس کی دلیل وہ حدیث بھی ہے، جسے امام ترمذی رحمہ اللہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَیُّمَا امْرَأَۃٍ نَکَحَتْ بِغَیْرِ اِذْنِ وَلِیِّھَا فَنِکَاحُھَا بَاطِلٌ، فَنِکَاحُھَا بَاطِلٌ، فَنِکَاحُھَا بَاطِلٌ، فَاِنْ دَخَلَ بِھَا فَلَھَا الْمَھْرُ بِمَا اسْتَعَلَّ مِنْ فَرْجِھَا، فَاِنِ اشْتَجَرُوْا فَالسُّلْطَانُ وَلِیُّ مَنْ لاَّ وَلِیَّ لَہٗ۔[2]
’’ جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اگر(نکاح کرنے
[1] سبل السلام ۳/ ۱۱۷.
[2] جامع ترمذی مع تحفۃ الاحوذی ۲/ ۱۷۶، امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حدیث عائشہ حسن ہے۔ (حوالہ مذکور ۲/ ۱۷۷) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’ بلوغ المرام ‘‘ میں لکھا ہے کہ اسے نسائی کے سوا ائمہ اربعہ (یعنی امام ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ) نے روایت کیا ہے اور ابوعوانہ، ابن حبان اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔ (بلوغ المرام ص ۲۲۴، طبع دار نشر الکتب اسلامیۃ، پاکستان) علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ (دیکھئے:صحیح سنن ابی داؤد ۲/ ۳۹۳، صحیح سنن ابن ماجہ ۱/ ۳۱۶، ارواء الغلیل ۶/ ۲۴۳).