کتاب: زنا کے قریب نہ جاؤ - صفحہ 205
مبحث دوم نکاح میں ولی کی شرط ۷۔ صحت نکاح کے لیے ولی کی موجودگی شرط ہے: اسلامی شریعت نے یہ شرط عائد کرکے کہ ولی کے بغیر نکاح صحیح نہیں، نکاح اور زنا میں بہت فرق کردیا ہے۔ اسلامی شریعت عورت کے اپنا نکاح خود کرنے کے رستے میں بھی حائل ہے تاکہ وہ اس راستے کو بھی بند کردے کہ کوئی زانیہ عورت من پسند شخص سے زنا کرنے کے بعد یہ نہ کہہ سکے کہ میں نے تو اس سے شادی کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی ملحوظ رکھا جائے کہ عقد نکاح کے وقت اولیاء کی حاضری بھی دراصل نکاح کی تشہیر ہی کے لیے ہوتی ہے اور یہی وہ اہم بات ہے، جس سے نکاح اور زنا میں فرق ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقد نکاح میں ولی کی مشارکت اور نگرانی کے حکم کو واضح فرمایا ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَا نِکَاحَ اِلاَّ بِوَلِیٍّ۔[1] ’’ ولی کے بغیر نکاح نہیں۔ ‘‘
[1] جامع ترمذی ۲/ ۱۷۵، امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حدیث ابی موسیٰ میں اختلاف ہے۔ ان لوگوں کی روایت میرے نزدیک زیادہ صحیح ہے، جنھوں نے اسے از ابواسحاق، از ابوبردہ از ابوموسیٰ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت کیا ہے کہ ’’ لَا نِکَاحَ اِلاَّ بِوَلِیٍّ ‘‘ (حوالہ مذکور ۲/ ۱۷۶) اس حدیث کو امام احمد، ابوداؤد، ابن ماجہ اور نسائی نے بھی روایت کیا ہے۔ امیر صفانی ’’ سبل السلام ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو عبدالرحمن بن مہدی نے صحیح قرار دیا ہے جیسا کہ امام ابن خزیمہ نے ابوالمثنّٰی کے حوالہ سے ان سے روایت کیا ہے۔ امام علی بن مدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نکاح کے بارے میں اسرائیل کی حدیث صحیح ہے۔ اسے امام بیہقی رحمہ اللہ اور کئی ایک دیگر حفاظ نے بھی صحیح قرار دیا ہے۔ (سبل السلام ۳/ ۱۱۷، طبع مصطفی البابی الحلبی، طبع چہارم ۱۳۷۹ھ) علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ (دیکھئے:صحیح سنن ابی داؤد ۲/ ۲۹۳، صحیح سنن ترمذی ۱/ ۳۱۸، صحیح سنن ابن ماجہ ۱/۳۱۷، ارواء الغلیل ۶/ ۲۳۵).