کتاب: زنا کے قریب نہ جاؤ - صفحہ 196
وہ یہ کہہ سکتی ہے کہ میں نے اپنے ولی سے مخفی رکھ کر گواہوں، اعلان، ولیمہ، دف اور آواز کے بغیر اپنے نفس کی تجھ سے شادی کردی ہے اور یہ بات قطعی طور پر معلوم ہے کہ زنا کے مفسدہ کی اس کی اس بات سے نفی نہیں ہوگی کہ میں نے اپنا نفس تیرے نکاح میں دے دیا، میں نے اپنے آپ کی تجھ سے شادی کردی یا یہ کہ میں نے اپنے جسم کا فلاں فلاں حصہ تیرے لیے قرار دے دیا ہے، اگر اس سے زنا کی برائی کی نفی ہوتی، تو اس کے لیے اور اس کے ساتھ بدکاری کرنے والے مرد کے لیے یہ نہایت آسان معاملہ ہوتا لہٰذا شارع نے عقد نکاح کے معاملہ کو نہایت عظیم قرار دیا اور ہر طرح ہر اس ذریعہ کو بند کردیا ہے، جو زنا کے مشابہہ ہو۔ [1] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف آداب کی طرف رہنمائی فرمائی ہے، جنھیں ملحوظ رکھنے سے اعلان ہوجاتا ہے، ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اسے مناسب تفصیل کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔ ۳۔ نکاح میں گواہوں کی موجودگی: اسلامی شریعت نے زنا کے شبہہ کو ختم کرنے اور نکاح کے اعلان کے لیے جن شرطوں کو ضروری قرار دیا ہے، ان میں سے ایک عقد نکاح کے وقت گواہوں کی موجودگی ہے۔ امام ابن حبان نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَا نِکَاحَ اِلاَّ بِوَلِیٍّ وَشَاھِدَیٌ عَدْلٍ، وَمَا کَانَ مِنْ نِّکَاحٍ عَلیٰ غَیْرِ ذٰلِکَ فَھُوَ بَاطِلٌ، فَاِنْ تَشَاجَرُوْا فَالسُّلْطَانُ وَلِیُّ
[1] اغاث الہفان من معاید الشیطان، تحقیق شیخ محمد حامد فقی ۱/ ۳۶۵۔ ۳۶۶، طبع مطبعہ مصطفیٰ البابی الحلبی، مصر، ۱۳۵۷ھ.