کتاب: زنا کے قریب نہ جاؤ - صفحہ 180
کرکے شوہر کے بستر پر آجانے سے ختم ہوتی ہے۔ [1]
شوہر کی بات نہ ماننے کی وجہ سے بیوی کی نماز قبول نہ ہونے کے بارے میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی مرفوع حدیث میں ہے کہ ’’ تین اشخاص کی نماز قبول ہوتی ہے اور نہ ان کی کوئی نیکی آسمان کی طرف لے جائی جاتی ہے۔(۱)بھاگا ہوا غلام حتی کہ واپس آجائے۔(۲)نشے میں مدہوش حتی کہ وہ حتی کہ ہوش میں آجائے اور(۳)وہ عورت جس کا شوہر اس سے ناراض ہو حتی کہ وہ راضی ہوجائے۔ ‘‘[2]
اسلامی شریعت کا یہ اہتمام بہت واضح ہے کہ نکاح کو فحاشی میں مبتلا ہونے سے روکنے کے لیے اپنا گم شدہ کردار ادا کرنا چاہیے، اسی وجہ سے اسلامی شریعت نے یہ حکم دیا ہے کہ عورت کو چاہیے کہ وہ شوہر کے حقوق کی پرواہ نہ کرتے ہوئے نفل عبادات میں مشغول نہ ہو … فرائض کی پابندی تو ہرحال میں فرض ہے … نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ عورت نفل نماز اس قدر طویل نہ پڑھے، جس سے اس کے شوہر کو نقصان پہنچے، اسی طرح شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر نفل روزہ بھی نہ رکھے۔
امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، اس وقت ہم آپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اس نے عرض کیا کہ میں جب نماز پڑھتی ہوں، تو میرا شوہر صفوان بن
[1] شرح النووی علیٰ صحیح مسلم ۱۰/ ۸۰۷، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں ابن ابی حمزہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ مرد کو تشویش میں مبتلا کرنے کا سب سے قوی داعیہ جنسی جذبہ ہے، اس لیے شارع نے عورتوں کو اس معاملہ میں اپنے شوہروں کے ساتھ تعاون کی ترغیب دی ہے۔ (فتح الباری ۹/ ۲۹۵).
[2] اس حدیث کو ابن خزیمہ و ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ بحوالہ فتح الباری ۹/ ۲۹۴، نیز دیکھئے:موارد الظمآن الیٰ زوائد ابن حبان ۳۱۵۔ ۳۱۶، امام طبرانی نے بھی اسے اسی طرح روایت کیا ہے۔ (دیکھئے:مجمع الزوائد ۴/ ۳۱۳) حافظ ھیثمی نے لکھا ہے کہ اس میں ایک راوی محمد بن عقیل ہے، اس کی حدیث حسن ہے لیکن اس میں ضعف ہے اور اس کے باقی رجال ثقہ ہیں۔ (حوالہ مذکور ۴/ ۳۱۳).