کتاب: زنا کے قریب نہ جاؤ - صفحہ 170
بات کو جان لیں کہ ان کے باپوں کو اس معاملہ میں کوئی اختیار نہیں ہے۔ [1] علامہ امیر یمانی اس حدیث سے باکرہ اور بالغہ عورت کے حق فسخ نکاح کے بارے میں استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں، جب اس کی رضامندی کے بغیر اس کا نکاح کردیا گیا ہو کہ ظاہر ہے کہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما میں جس خاتون کا ذکر ہے، وہ باکرہ تھی، اس کے والد نے کفو کے ساتھ جو اس کا بھتیجا تھا، اس کا نکاح کیا تھا اور اگر وہ ثیبہ بھی ہو تو اس نے صراحت کی ہے کہ اس کا مقصد صرف عورتوں کو یہ بات معلوم کرانا تھا کہ باپوں کو کچھ حق حاصل نہیں ہے اور لفظ نساء(عورتیں)عام ہے، جو ثیبہ اور باکرہ سب کے لیے استعمال ہوتا ہے، اس نے یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کہی تھی اور آپ نے اس کی اس بات کو برقرار رکھا، باپوں سے حق کی نفی سے مراد رشتے کو ناپسند کرنے والی کی شادی کی نفی ہے کیونکہ سیاق اسی معاملہ سے متعلق ہے، لہٰذا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ حکم عام ہے اور ہر چیز کے لیے ہے۔ [2] خلاصۂ کلام یہ کہ عورت خواہ باکرہ ہو یا ثیبہ اس کی رضامندی کے بغیر اس کا نکاح نہ کیا جائے اور اگر اس کا نکاح زبردستی کردیا گیا ہو تو وہ فسخ نکاح کا مطالبہ کرسکتی ہے، اس سے یہ بات بھی ظاہر ہوجاتی ہے کہ اسلامی شریعت اس امر کی کس قدر شدید خواہش مند ہے کہ خاندان مضبوط بنیادوں پر استوار ہو۔ [3]
[1] سنن ابن ماجہ ۱/ ۶۰۲۔ ۶۰۳۔ بوصیری کہتے ہیں کہ یہ سند صحیح اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔ (مصباح الزجاجہ فی زوائد ابن ماجہ ۱/ ۳۳۰) زوائد میں بھی ہے کہ اس کی سند صحیح ہے۔ مصنف کے علاوہ کئی دیگر ائمہ نے بھی اسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور دیگر صحابہ کرام سے روایت کیا ہے. [2] سبل السلام ۳/ ۱۲۳. [3] اس موضوع کے بارے میں تفصیل معلوم کرنے کے لیے خواہش مند مجموع فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ۳۲/ ۲۲۔ ۲۵۔ ۲۸۔ ۳۰۔ ۳۹۔ ۴۰۔ ۵۲، زاد المعاد ۴/ ۳۔ ۴، سبل السلام ۳/ ۱۲۳ اور تحفۃ الأحوذی ۲/ ۱۷۹ ۱۸۰کی طرف رجوع کریں.