کتاب: زنا کے قریب نہ جاؤ - صفحہ 168
عرصے کے لیے تکلیف دہ ہے اور اس سے جدائی ممکن نہیں۔ [1] ۹۔ اس لڑکی کے بارے میں حکم جس کی مرضی کے بغیر شادی کردی گئی ہو: اسلام نے بیٹی کی شادی کے لیے اس کی رضامندی کی شرط پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ جب اس کے اولیاء میں سے اس کا باپ یا کوئی اور اس کی رضامندی کے بغیر اس کی شادی کردے، تو اسے فسخ نکاح کا حق بھی دیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح میں خنساء بنت خدام انصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ ان کے باپ نے ان کی شادی کردی، وہ شیبہ تھیں، انھوں نے اس شادی کو ناپسند کیا تو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس کا ذکر کیا، تو آپ نے ان کے نکاح کو ردّ کردیا۔ [2] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ ثیبہ کے اس کی رضامندی کے بغیر کیے گئے نکاح کو ردّ کردینے پر اجماع ہے الا یہ کہ امام حسن بصری سے منقول ہے کہ انھوں نے باپ کے لیے ثیبہ کو مجبور کرنا جائز قرار دیا ہے۔ [3] جہاں تک بالغہ باکرہ عورت کا تعلق ہے، اس کے بارے میں امام ابن ماجہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ ایک باکرہ لڑکی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اس کے باپ نے اس کی شادی کردی ہے، جسے وہ ناپسند کرتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے(اس شادی کے باقی رکھنے یا نہ رکھنے کا)اختیار دے دیا تھا۔ [4] امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ثیبہ اور باکرہ
[1] مجموع فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ۳۲/ ۳۰. [2] صحیح البخاری مع فتح الباری ۹/ ۱۹۴. [3] فتح الباری ۹/ ۱۹۴. [4] سنن ابن ماجہ مع تحقیق محمد فؤاد عبدالباقی ۱/ ۶۰۳، مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسے (یعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی مذکورہ حدیث) امام ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ نے بھی روایت کیا ہے۔ ابن قطان نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث صحیح ہے۔ (تحفۃ الأحوذی ۲/ ۱۸۰) مولانا مبارکپوری l دوسرے مقام پر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے، حافظ نے فتح میں لکھا ہے کہ اس حدیث پر طعن کے کوئی معنی نہیں کیونکہ اس کے مختلف طرق سے ایک دوسرے کی تقویت ہوجاتی ہے۔ (حوالہ مذکور ۲/ ۱۸۰) مولانا شمس الحق ڈیانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث قوی اور حسن ہے۔ واللہ أعلم۔ (عون المعبود شرح سنن ابی داؤد ۲/ ۱۹۶) امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نکاح کو ناپسند کرنے والی باکرہ کے لیے اختیار کا فیصلہ فرمایا، اس حدیث کا مرسل ہونا اس کے لیے باعث علت نہیں کیونکہ یہ مسند اور مرسل دونوں طرح مروی ہے، اگر ہم بقول فقہاء یہ کہیں کہ متصل ہونا ایک زائد امر ہے جو ظاہر ہے کہ جس نے اس حدیث کو موصول قرار دیا، وہ مرسل قرار دینے والے سے مقدم ہے، اکثر احادیث کے بارے میں فقہاء کا تصرف اسی طرح ہوتا ہے، تو پھر اس حدیث کو اس جیسی دیگر احادیث کے حکم سے خارج کیوں قرار دیا جائے اور اگر بہت سے محدثین کے قول کے مطابق ہم اس حدیث کے بارے میں ارسال کا حکم لگائیں، تو یہ حدیث مرسل قوی ہے، صحیح و صریح آثار، قیاس اور قواعد شرع سے اس کی تائید و تقویت ہوتی ہے جیسا کہ ہم آگے ذکر کریں گے، لہٰذا اس کے مطابق قول متعین ہوگیا ہے۔ (زاد المعاد ۴/ ۳).