کتاب: زنا کے قریب نہ جاؤ - صفحہ 158
اسے دیکھ لو کیونکہ یہ اس لائق ہے کہ تم دونوں میں محبت پیدا ہوجائے۔ [1] امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حدیث کے الفاظ:أَحْرٰی أَنْ یُّؤْدَمَ بَیْنَکُمَا کے معنی یہ ہیں کہ یہ اس لائق ہے کہ تم دونوں میں ہمیشہ محبت رہے۔ [2] ملا علی قاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں ابن الملک سے نقل کیا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس سے تم دونوں میں الفت و محبت ہوگی کیونکہ جب تم جان پہچان کرکے شادی کروگے تو اس سے تمھیں شادی کے بعد ندامت نہیں ہوگی۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ منگیتر کی طرف دیکھنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ منگیتر کی طرف دیکھنے کے استحباب کا سبب یہ ہے کہ خاوند شادی علی وجہ البصیرت کرے اور وہ اس ندامت سے بچ سکے، جو اس صورت میں اسے لاحق ہوگی، جب وہ نکاح کرے اور وہ اس کی خواہش کے مطابق نہ ہو اور وہ اسے ردّ بھی نہ کرسکے اور اگر ردّ کرنا چاہے تو تلافی کے لیے اسے زیادہ سہولت میسر ہو اور اگر شادی اس کی خواہش کے مطابق ہو تو اس میں شوق کی نشاط انگیزیاں ہوں۔ حکیم آدمی کسی ایسی جگہ نہیں جاتا، جب تک وہاں جانے سے قبل اچھائی اور برائی کی ساری صورتِ حال معلوم نہیں کرلیتا۔ [3] منگیتر کی طرف دیکھنے کا حکم مستحب ہے، واجب نہیں ہے جیسا کہ دوسری احادیث سے یہ بات واضح ہے، جن میں سے ایک حدیث وہ ہے، جسے امام ابوداؤد و حاکم نے جابر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ جب تم میں سے کوئی عورت سے منگنی کرے اور اگر وہ اس چیز کو دیکھ سکتا ہو، جو اسے نکاح کی دعوت دے، تو وہ ایسا کرے، [4] اسی طرح ایک حدیث وہ ہے، جسے امام احمد نے مرفوعاً روایت کیا ہے
[1] جامع ترمذی مع تحفۃ الأحوذی ۲/ ۱۶۹، امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے، شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ (دیکھئے:صحیح سنن ترمذی ۱/ ۳۱۵).
[2] جامع ترمذی ۲/ ۱۶۹.
[3] حجۃ اللّٰہ البالغہ.
[4] سنن ابی داؤد ۱۰/ ۷۸ (مطبوع مع بذل المجہود)، المستدرک ۲/ ۱۶۵، یہ الفاظ ابوداؤد کی روایت کے ہیں، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی سند حسن ہے۔ فتح الباری ۹/ ۱۸۱.