کتاب: زنا کے قریب نہ جاؤ - صفحہ 147
جائے گا اور جس صورت میں انتظار کرنے کی عادت نہ ہو، انتظار نہیں کیا جائے گا تاکہ اس طرح کی صورت میں عورت کو شادی سے منع کرنے سے نقصان نہ پہنچے۔[1]
۲۱۔ ولی کے مفقود یا قیدی ہونے کی وجہ سے غائب ہونے کی صورتمیں حکم:
ولی جب مفقود الخبر یا قیدی یا محبوس ہو اور اس کی طرف رجوع کرنا ممکن نہ ہو تو اس کے بارے میں امام ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’ اگر قریبی ولی کسی نزدیک مقام پر محبوس یا قیدی ہو کہ اس کی طرف رجوع کرنا ممکن نہ ہو تو وہ بعید ہی کی طرح ہے کیونکہ بُعد کا بعینہٖ اعتبار نہیں بلکہ یہ اس وجہ سے ہے کہ شادی کے معاملہ کے لیے اس کے پاس پہنچنا مشکل ہوتا ہے اور یہ شخص یہاں موجودد ہے، اگر غائب ہوتا اور معلوم نہ ہوتا کہ وہ قریب ہے یا بعید یا معلوم ہوتا ہے کہ وہ قریب ہے لیکن یہ معلوم نہ ہوتا کہ وہ کس جگہ ہے، تو اس صورت میں وہ بعید ہی ہے۔ ‘‘[2]
شیخ محمد شربینی خطیب شافعی فرماتے ہیں کہ اذرعی نے کہا ہے کہ ظاہر قول یہ ہے کہ اگر وہ اپنے ہی شہر میں بادشاہ کی قید میں ہو اور اس کے پاس پہنچنا مشکل ہو تو قاضی نکاح کرادے۔ [3] اس کی طرف سے بھی قاضی نکاح کرادے گا، جو مفقود ہو اور معلوم نہ ہو کہ وہ کہاں ہے اور نہ اس کی موت و حیات کے بارے میں علم ہو کیونکہ اس کی طرف سے نکاح کرانا مشکل ہوگا گویا اس کی یہ حالت اس طرح ہے، جیسے وہ اسے نکاح سے روک رہا ہو۔ [4]
[1] المغنی ۶/ ۴۷۶.
[2] حوالہ مذکور ۶/ ۴۷۹.
[3] انھوں نے کہا ہے کہ قاضی نکاح کرادے گا کیونکہ شافعیہ کے نزدیک قریب ترین ولی کی عدم موجودگی کی صورت میں حاکم بیٹی کے نکاح کے لیے ولی ہوتا ہے.
[4] مغنی المحتاج علی متن المنہاج، شیخ محمد شربینی خطیب ۳/ ۱۵۷، ط:مصطفیٰ البابی الحلبی، مصر ۱۳۷۷ھ.