کتاب: زنا کے قریب نہ جاؤ - صفحہ 143
سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی حضرت حفصہ جب اپنے شوہر خفیس بن حذافہ سہمی کے انتقال کی وجہ سے بیوہ ہوگئیں … جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے اور مدینہ میں فوت ہوئے تھے … تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میں عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان کے پاس گیا اور میں نے انھیں حفصہ سے نکاح کی پیشکش کی تو انھوں نے کہا کہ میں اس معاملے میں غور کروں گا، میں نے کئی راتوں تک انتظار کیا، پھر میری جب ان سے ملاقات ہوئی، تو انھوں نے کہا کہ میرا خیال یہ ہے کہ اب میں شادی نہیں کروں گا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملا اور کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں حفصہ کو آپ کی زوجیت میں دے دیتا ہوں، ابوبکر رضی اللہ عنہ خاموش ہوگئے اور انھوں نے کوئی جواب نہ دیا، میں نے عثمان رضی اللہ عنہ کی نسبت ان کے بارے میں زیادہ ناراضی محسوس کی، کچھ دنوں بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ کا رشتہ طلب فرمالیا، تو میں نے اسے آپ کے جسالہ عقد میں دے دیا۔ [1]
اس خدشہ کے پیش نظر کہ اولیاء کے وجود کی شرط نکاح کے رستے میں رکاوٹ نہ بنے، اولیاء کی عدم موجودگی کی وجہ سے یا اپنی ولیہ کی شادی کی ذمہ داری کو پورا کرنے کے سلسلہ میں ان کے سؤ تصرف کی وجہ سے، شادی کی تاخیر یا تعطیل سے بچانے کیل یے اسلام نے اس مسئلہ کا بھی حل پیش کیا ہے کیونکہ ان دونوں صورتوں میں فحاشی کے پھیلنے کا اندیشہ ہے۔
اس مبحث میں ہم ان شاء اللہ تعالیٰ پہلے یہ ذکر کریں گے کہ اولیاء کی عدمِ موجودگی
[1] صحیح البخاری مع فتح الباری ۹/ ۱۷۵۔ ۱۷۶، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ ’’ اس سے معلوم ہوا کہ انسان اپنی بیٹی یا اپنی دیگر خواتین کے نکاح کی ایسے شخص کو پیشکش کرسکتا ہے، جس کے بارے میں اس کا خیال ہو کہ وہ ایک اچھا اور نیک انسان ہے کیونکہ اس میں اس خاتون کا بھی فائدہ ہے، جس کے رشتہ کی پیشکش کی جارہی ہو، اس میں شرم کی کوئی بات نہیں۔ (فتح الباری ۹/ ۱۷۶).