کتاب: زنا کے قریب نہ جاؤ - صفحہ 142
طرح حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا ولیمہ کیا تھا، یہ ولیمہ آپ نے ایک بکری کے ساتھ کیا تھا۔ [1]
اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ولیموں میں اعتدال اور عدمِ تکلف کی تعلیم دی ہے۔ مطلوب یہ نہیں کہ ہم ولیمہ میں دو جو مد یا کھجور یا پنیر یا صرف ایک بکری ہی پر اکتفاء کریں بلکہ مطلوب یہ ہے کہ ہر شخص حسب توفیق کسی تکلف اور حرج کے بغیر ولیمہ کرے اور جو شخص ولیمہ کا فخر و غرور کے اظہار کا وسیلہ بناتا ہے، اس کا عمل مذموم ہے لہٰذا اس کی دعوت قبول نہ کی جائے۔
مبحث دوم
اولیاء نکاح کو آسان بنائیں، رکاوٹیں کھڑی نہ کریں
۱۷۔ تمہید:
اسلامی شریعت نے بیٹی کے اولیاء کی شرکت کو صحت نکاح کے لیے شرط قرار دیا ہے۔ [2] شاید اس شرط سے مقصود یہ ہے … واللہ أعلم … کہ اولیاء نکاح کے معاملے کو آسان بنانے کے لیے کام کریں، بیٹی کی عام و خاص ہر طرح کی مصلحتوں کو ملحوظ رکھیں، اولیاء اس بات کو سمجھتے بھی تھے، وہ اپنی لڑکیوں کے نکاح کے لیے مقدور بھر کوششیں کرتے تھے، ہم یہاں ایک قصہ ذکر کرتے ہیں، جس سے اس اہتمام کی صورت کے بارے میں ہمیں معلوم ہوجاتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما
[1] حوالہ مذکور ۹/ ۲۳۲.
[2] صحیح البخاری مع فتح الباری ۹/ ۱۷۵۔ ۱۷۶، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ ’’ اس سے معلوم ہوا کہ انسان اپنی بیٹی یا اپنی دیگر خواتین کے نکاح کی ایسے شخص کو پیشکش کرسکتا ہے، جس کے بارے میں اس کا خیال ہو کہ وہ ایک اچھا اور نیک انسان ہے کیونکہ اس میں اس خاتون کا بھی فائدہ ہے، جس کے رشتہ کی پیشکش کی جارہی ہو، اس میں شرم کی کوئی بات نہیں۔ (فتح الباری ۹/ ۱۷۶).