کتاب: زنا کے قریب نہ جاؤ - صفحہ 128
پہلا مسئلہ مہر میں بہت زیادہ اضافہ ۱۱۔ تمہید۔ ۱۲۔ الف۔ یہ غلط اعتقاد کہ مہر سے بیٹی کا مستقبل محفوظ ہوجاتا ہے۔ ۱۳۔ ب۔ مہر میں بہت زیادہ اضافہ عزت و افتخار کا مظہر ہے۔ ۱۴۔ ج۔ مہر کے پس پردہ ولی کی مال کمانے کی کوشش۔ ۱۱۔ تمہید: اسلام نے مہر کو عورت کی عزت و تکریم کی علامت قرار دیا ہے، اسے نکاح کے رستے میں حائل رکاوٹ نہیں بنایا، شائد یہی وجہ ہے کہ اس کے لیے کوئی ایسی مقدار مقرر نہیں کہ جس سے کم یا زیادہ نہ ہوسکتا ہو بلکہ اس کی مقدار کو لوگوں پر چھوڑ دیا ہے تاکہ ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق مہر ادا کرسکے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی ترغیب دی ہے کہ مہر اتنا ہو، جیسے آسانی کے ساتھ ادا کیا جاسکتا ہو، عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہترین مہر وہ ہے(جسے ادا کرنا)بہت آسان ہو، [1] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا تھا، جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی تھی کہ آپ اس کا اس عورت سے نکاح کردیں، جس نے اپنے تئیں آپ کو ہبہ کردیا تھا کہ جاؤ تلاش کرو، خواہ لوہے کی ایک انگوٹھی ہو، [2] الغرض اسلام نے مہر کو واجب تو قرار دیا ہے لیکن اسے نکاح کے رستے میں رکاوٹ نہیں بنایا، اس
[1] سنن ابی داؤد ۱۰/ ۱۴۶ (مطبوع مع بذل المجہور)، حاکم، مستدرک ۲/ ۱۸۲، امام حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے، الفاظ بھی انہی کی روایت کے مطابق ہیں، علام ذہبی نے بھی اس حدیث کو صحیح قرار دینے میں امام حاکم کی تائید کی ہے۔ (دیکھئے:تلخیص ۲/ ۱۸۲). [2] اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے بروایت ابن سعد رضی اللہ عنہ بیان کیا ہے، صحیح البخاری مع فتح الباری ۹/ ۱۷۵.