کتاب: زنا کے قریب نہ جاؤ - صفحہ 121
عورتیں بے زوج تھیں، جن کا نکاح نہیں کیا گیا، اگر امر وجوب کے لیے ہوتا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کے نکاح کرادیتے لیکن ہماری رائے میں امر کا یہ صیغہ یہاں وجوب ہی کے لیے ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ امام بے زوج مردوں اور عورتوں کو شادی کے لیے مجبور کرے، البتہ اس کے یہ معنی ضرور ہیں کہ امام کے لیے شادی کی رغبت کرنے والوں کی اعانت اور انھیں پاک دامنی کا موقعہ فراہم کرنا واجب ہے، جب کہ شادی پاک دامنی کے حاصل کرنے اور بدکاری سے بچنے کا ایک عملی وسیلہ ہے، اس سے اسلامی معاشرہ بلاشبہ بدکاری و فحاشی سے پاک ہوجاتا ہے، لہٰذا نکاح کرنا واجب ہے اور واجب کا وسیلہ بھی واجب ہے [1]۔ [2] کتب حدیث کا مطالعہ کرنے والے کے لیے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بے زوج مردوں اور عورتوں کی مدد کرنا ایک مرغوب کام تھا۔ ہم اس سلسلہ میں بطورِ مثال دو حدیثیں ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ نے حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا
[1] فی ظلال القرآن ۶/ ۹۸۔ ۹۹. [2] شیخ محمد علی العابونی اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ’’ ہم نے اس قول کو اختیار کیا ہے کہ یہاں امر کی مخاطب تمام امت ہے، امت کے تمام افراد کے لیے واجب ہے کہ وہ شادی کے اسباب کو آسان بنائیں اور نوجوانوں کی شادی کے لیے اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں اور مشکلات کے ازالہ کے لیے خوب خوب سرگرم عمل ہوں کیونکہ شادی ہی عفت اور پاک دامنی کے حاصل کرنے کا راستہ ہے لہٰذا یہ خطاب سب اُمت سے ہے۔ آیت کریمہ میں نکاح سے مراد صرف عقد نکاح کا اجراء ہی نہیں ہے کیونکہ ’’ ایامی ‘‘ کا لفظ ان تمام مردوں اور عورتوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جو بے زوج ہوں، خواہ وہ چھوٹی عمر کے ہوں یا بڑی عمر کے اور یہ بات معلوم ہے کہ بڑی عمر کے آدمی پر تو کسی کو ولادت حاصل نہیں ہوتی، اس سے بھی ہماری بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ خطاب ساری اُمت کے لیے ہے اور نکاح کرادینے سے مراد یہ ہے کہ نکاح کے لیے مدد اور تعاون کیا جائے اور اس کے اسباب کو آسان بنایا جائے۔ (تفسیر آیات الاحکام ۲/ ۱۸۵، ط:مکتبۃ الغزالی، دمشق ۱۳۹۷ھ).